ریاستی اعلان کے بغیر جنگ کے نقصانات:
دنیا کی پوری تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ صرف انہی لوگوں مسلح جدوجہد کامیاب ہوئی ہے جن کے قبضے میں کچھ علاقہ ہو، وہ آزادی کا اعلان کریں، اُن کا ایک ہی لیڈر ہو، اُس لیڈر کے تحت ایک متحد فوج ہو، اور اُس فوج کاایک سپہ سالار ہو، جس کے تحت وہ فوج متحد ہوکر لڑے۔ ظاہر ہے کہ دشمن فوج سے جنگی تعداد و وسائل کی ایک خاص نسبت کا ہونا بھی ضروری ہے۔
اس کی وجہ واضح ہے۔وہ یہ کہ اگر ریاستی اعلا ن کے بغیر لوگ اپنے اپنے مسلح جتھے بنانے لگیں،مختلف سیاسی پارٹیاں اور مذہبی مسالک اپنی پرائیویٹ افواج بنانے لگیں،حکومتی معاہدوں کا احترام نہ کریں اور اپنی صوابدید پر جنگ کا اعلان کرتے پھریں، تو ملک کے اندر طوائف الملوکی کا دور دورہ ہوجائے گا اور ہر طرف افراتفری پھیل جائے گی۔اس کے مضر اثرات ملک کے اندرونی معاملات پر بھی پڑیں گے اور بیرونی معاملات پر بھی۔بعید نہیں کہ یہ مسلح گروہ آپس میں بھی لڑنا شروع کردیں۔چنانچہ یہ لازم ہے کہ صلح وجنگ دونوں کااعلان صرف اور صرف حکومت کی طرف سے ہو۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ حکومتوں نے فوجیں بنائی ہیں۔حکومتیں بھی اگر غلط مقاصد اورظلم کی خاطر لڑائی شروع کریں، تو اس سے بڑے نقصانات پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن اگر مختلف گروہ اپنی اپنی فوجیں بنانے لگیں، تو اس کے نقصانات بدرجہا زیادہ ہوتے ہیں، کیونکہ اس سے تو مکمل طور پر افراتفری جنم لیتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق جنگ صرف اور صرف ریاست کاکام ہے۔ ریاست کو بھی یہ حق صرف اُس وقت حاصل ہے جب وہ ظلم کے خلاف جنگ کرے، بین الاقوامی معاہدات کی پاسداری کرتے ہوئے جنگ کرے، اور صرف اُس وقت لڑائی کرے جب وہ دشمن سے لڑائی جیتنے کی پوزیشن میں ہو۔
بدقسمتی سے 1980ء کے بعد اُمتِ مسلمہ کے مختلف گروہوں کی جانب سے مسلح جتھے منظم کیے گئے، جنہوں نے دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلح کاروائیاں شروع کردیں۔ اس کی وجہ سے اب یہ ایک عام تاثر ہے کہ گروہی بنیاد پر بھی جنگ کی جا سکتی ہے۔ گروہوں کی بنیاد پر جنگ کی یہ حکمتِ عملی اُس وقت شروع کی گئی جب دسمبر 1979ء میں روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں۔ ظاہر ہے کہ یہ روس کی طرف سے ایک ظالمانہ اقدام تھا۔
اُس وقت حکومتِ پاکستان کے پاس دو راستے تھے۔ ایک پُرامن راستہ، جو یہ تھا کہ اِس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے جایا جاتا، اس کو ایک عالمی مسئلہ بنایا جاتا، اقوام متحدہ کے تحت بات چیت کا آغاز کیا جاتا، اور اس بات چیت کے ذریعے روس کو کچھ یقین دہانیاں کرواکر افغانستان سے واپس جانے پر آمادہ یا یا مجبور کیا جاتا۔ گویا اس صورت میں پاکستان اپنی طرف سے کوئی براہ راست قدم نہ اٹھاتا، بلکہ وہ اقوام متحدہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا۔ دینی اعتبار سے پاکستان کے لیے یہ ایک صحیح راستہ ہوتا۔
دوسرا راستہ عملی مزاحمت کا راستہ تھا۔ اس راستے کے اختیارکرنے کا لازمی تقاضا یہ تھا کہ سب سے پہلے ایک متفقہ افغان جلاوطن حکومت بنائی جاتی، اُس حکومت کو دنیا کے اہم ممالک اور اقوام متحدہ سے تسلیم کروایا جاتا۔ پھر اس جلاوطن حکومت کا امریکہ اور پاکستان سمیت دوسرے ممالک سے فوجی مدد کا معاہدہ ہوتا، جس کے تحت یہ ممالک اُس کی فوجی مدد کا وعدہ کرتے۔ اس معاہدے کو اقوام متحدہ کی تائید حاصل ہوتی، اور پھر اس جلاوطن حکومت کی زیرِ نگرانی قائم شدہ فوج کے ذریعے افغانستان کی آزادی کی جدوجہد شروع کی جاتی۔ اس طرح فوجی کامیابی کے فوراً بعد افغانستان میں ایک مستحکم حکومت وجود میں آجاتی۔ دینی اعتبار سے یہ راستہ بھی صحیح تھا۔
لیکن پاکستان کے اُس وقت کے ملٹری ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے اس سے ہٹ کر ایک تیسرا راستہ اختیار کیا، جو انتہائی غلط اور خطرناک تھا، اور جس کی کامیابی کی کوئی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔وہ یوں کہ افغانستان کی مزاحمتی قوتوں کے چھ بڑے گروہ بنادیے گئے۔ ان میں سے ہر گروہ کو ڈالر اور اسلحہ دیا گیا، اور ان کے ذریعے روسی افواج کے خلاف مسلح کاروائی شروع کردی گئی۔ یہ کام اسلامی تعلیمات کے بالکل برخلاف تھا، اور یہی افغانستان کی بعد کی ساری تباہی کی بنیاد بنا۔
(یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے علاقے کی قریبی تاریخ سے ایک ایسی مثال پیش کی جائے جس سے فرق واضح ہوجائے۔ 1970ء میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے انتخاب میں بھرپور کامیابی حاصل کی، لیکن اُس وقت کے ملٹری ڈکٹیڑ جنرل یحیےٰ خان نے عوامی لیگ کو اقتدار متقل کرنے سے انکار کردیا، اور مارچ 1971ء میں عوامی لیگ کے خلاف فوجی کاروائی شروع کی۔ چنانچہ لاکھوں لوگ اور عوامی لیگ کے زیادہ تر رہنماوؤں نے بھاگ کر بھارت میں پناہ لی۔
اب دیکھئے کہ بھارت نے کس طرح حالات اپنے حق میں بنائے۔ سب سے پہلے یہ کیا گیا کہ ایک ’’آزاد جلاوطن بنگلہ دیش‘‘ نامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ عوامی لیگ کے ایک اہم رہنما تاج الدین احمد کو اس کا صدر بنالیا گیا۔ تاج الدین احمد نے آزادی کی جدوجہد کے لیے ’’مکتی باہنی‘‘ نامی مسلح اور متحدفوج بنانے کا اعلان کیا۔ کرنل عثمانی کو اس فوج کا سربراہ بنایا گیا۔ اس کے بعد اس جلاوطن آزاد حکومت نے بھارتی حکومت سے آزادی کی جدوجہد میں مدد دینے اور مکتی باہنی کو تربیت دینے کا علی الاعلان معاہدہ کرلیا۔ اس کے بعد بھارتی حکومت نے اپنے آپ کو مزید مضبوط بنانے کی خاطر روس کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرلیا۔ بھارتی حکومت نے یہ دفاعی معاہدہ اس غرض سے کیا تھا کہ کسی موقعے پر امریکہ پاکستان کی مدد کو نہ آجائے۔
اس کے بعد ’’آزاد بنگلہ حکومت‘‘ نے مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے کا اعلان کیا اور بھارتی افواج سے مدد دینے کی درخواست کی۔ اس جنگ کے نتیجے میں جب 17دسمبر1971ء کو پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے تو اُسی لمحے انتقالِ اقتدار ہوگیا اور ’’آزاد بنگلہ دیش‘‘ نامی ریاست نے اقتدار سنبھال لیا۔
بھارت نے ماضی کے سب جنگی تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے یہ پالیسی بنائی۔ اگروہ اس پالیسی کے بنانے میں قواعد وضوابط کا خیال نہ رکھتا، تو اُس کی کامیابی بڑی مشکل ہوجاتی۔
بھارت کی اس حکمت عملی کا پاکستان کی اُس حکمتِ عملی سے موازنہ کیجئے جو پاکستان نے افغانستان کے معاملے میں اختیار کی، فرق صاف واضح ہوجائے گا۔
بھارت نے تو یہ سب کچھ محض سابقہ تجربات کی بنیاد پر کیا تھا۔ لیکن ہمارے لیے تو اس سے کہیں آگے بڑھ کر اصل بنیاد یہ ہے کہ ہمارے دین نے ہمیں یہی کچھ سکھایا ہے کہ مسلح کاروائی کا حق صرف اور صرف ایک ریاست وحکومت کو ہے۔ چنانچہ ہمارے لیے تو یہ بہت ضروری تھا کہ ہم اس اصول پر عمل کرتے)۔
چونکہ موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ کے اندر مسلح تنظیموں کی بنیاد پر متشددانہ کاروائیوں کی ایک لہر شروع ہوگئی ہے۔ یہ سب لوگ اپنی ان متشددانہ کاروائیوں کو جہاد کا نام دیتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس اصول پر کہ ’’جنگ صرف ریاست کاکا م ہے‘‘ ، پر کئی اعتراضات کیے ہیں۔ ان میں سے چنداہم اعتراضات کا یہاں جائزہ لیا جارہا ہے۔
پہلا اعتراض یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد حضرت ابو بصیرؓ مسلمان ہوکر مکے سے مدینے آگئے۔جب قریش نے اُن کے پیچھے اپنے آدمی بھیج دیے تو حضورؐ نے معاہدے کے مطابق حضرت ابوبصیرؓ کو اُن کے حوالے کردیا۔راستے میں کسی جگہ موقعہ پاتے ہی انہوں نے ایک مشرک کو قتل کردیا، جب کہ دوسرا بھاگ گیا۔ اس کے بعد ابوبصیرؓ نے ایک ساحلی جگہ پر رہائش اختیار کرلی۔ چنانچہ مکہ میں جتنے لوگ اسلام قبول کرتے، وہ مدینے جانے کے بجائے ابوبصیرؓ کے پاس اس جگہ چلے آتے۔ یہ قریش کے تجارتی قافلوں کا راستہ تھا۔ چنانچہ ابو بصیرؓ اور ان کے ساتھیوں نے قریش کے قافلوں پر حملے کیے اور انہیں خوب تنگ کیا۔اس سے تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ گروہی بنیاد پر بھی جنگ جائز ہے۔
درج بالا بیان صحیح نہیں ہے۔اصل واقعہ یوں ہے کہ جب قریش اورحضورؐ کے درمیان امن کا معاہدہ یعنی ’صلح حدیبیہ ‘ ہوا تواس وقت بہت سے مسلمان مدینے کی ریاست کی حدود سے باہر بھی بستے تھے۔ان کے بارے میں قرآن مجید نے سورۃ انفال8۔آیت 72،میں یہ اصول واضح کر دیاتھا کہ جب تک وہ لوگ ہجرت کرکے مدینہ نہ آجائیں،وہ ریاست مدینہ کے شہری نہیں ہیں اور ان کے کسی قول وفعل کی ذمہ داری حضورؐپر عائد نہیں ہوتی۔اس آیت کے متعلقہ حصے کا ترجمہ درج ذیل ہے۔
’’رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کرکے (ریاست مدینہ میں)آنہیں گئے تو ان سے تمھارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک وہ ہجرت کرکے نہ آجائیں۔ہاں اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد تم پر لازم ہے، مگرکسی ایسے قوم کے خلاف نہیں جس سے تمھارا معاہدہ ہو۔‘‘
اس آیت کی تشریح میں مولانا مودودی لکھتے ہیں:
’’یہ آیت اسلامی حکومت کی خارجہ سیاست پر بھی اثر ڈالتی ہے۔اس کی رو سے دولتِ اسلامیہ کی ذمہ داری ان مسلمانوں تک محدود ہے جو اس کی حدود کے اندر رہتے ہیں۔باہر کے مسلمانوں کے لئے کسی ذمہ داری کا بار اس کے سر نہیں ہے۔۔۔۔اس طرح اسلامی قانون نے اس جھگڑے کی جڑ کاٹ دی ہے جو بالعموم بین الاقوامی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔کیونکہ جب کوئی حکومت اپنی حدود سے باہر رہنے والی بعض اقلیتوں کا ذمہ اپنے سر لے لیتی ہے تو اس کی وجہ سے ایسی الجھنیں پڑ جاتی ہیں جن کو باربار کی لڑائیاں بھی نہیں سلجھا سکتیں۔‘‘(تفہیم القرآن۔جلد دوم۔صفحہ۔162-161)
حضرت ابو بصیرؓ اور اسی طرح بہت سے دوسرے مسلمان ریاست مدینہ کی حدود سے باہر رہتے تھے۔اس لئے ان کی کوئی ذمہ داری حضورؐ پر عائد نہیں ہوتی تھی۔اسی لئے حضورؐ نے فرمایا۔’’میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت وحفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو۔‘‘یہی وجہ ہے کہ اہلِ علم کے نزدیک دراصل ابو بصیرؓ نے اُس بستی کی شکل میں اپنی ایک چھوٹی سی ریاست بنالی تھی، جس کی سربراہی اُن کے پاس تھی، اور جس کی کوئی ذمہ داری حضورﷺپر عائدنہیں ہوتی تھی۔ واضح رہے کہ حضورؐ نے ابوبصیرؓ کے ان اقدامات کو پسند نہیں فرمایا۔چنانچہ صحیح بخاری کی روایت نمبر 2734 کے مطابق آپؐ نے فرمایا
’’ویل امہ مسعر حرب لوکان لہ‘‘۔
’’اس کی ماں پر آفت آئے۔اسے کچھ ساتھی مل گئے تو جنگ کی آگ بھڑکا کر رہے گا۔‘‘
اس لئے جب قریش نے حضورؐسے درخواست کی کہ ابوبصیرؓ کی کاروائیوں کو روکنے کے لئے کچھ کیا جائے تو آپؐ نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو مدینہ بلا لیا تاکہ ان کے حملوں کاسدباب ہو۔(ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر جلد پانچ۔صفحہ167.166 )
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ حضرت حسینؓ نے یزید کے خلاف جہاد کیا تھا حالانکہ وہ کسی ریاست کے سربراہ نہیں تھے۔
درج بالا بیان بھی تاریخی اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔اصل صورت یہ تھی کہ حضرت حسینؓ کو عراق کے لوگوں کی طرف سے سینکڑوں خطوط ملے ،جن میں ان سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ عراق آئیں،سارا عراق ان کو حکمران تسلیم کرنے کے لئے تیار ہے۔ظاہر ہے کہ خطوط سے یہ تو معلوم نہیں ہوتا کہ برسرِ زمین صورت حال کیا ہے۔چنانچہ حقیقت کا جائزہ لینے کے لئے حضرت حسینؓ اپنے خاندان والوں کے ہمراہ عراق روانہ ہوئے۔نہ تو ان کے پاس کوئی فوج تھی اور نہ ہی ان کا کسی سے لڑنے کا ارادہ تھا۔جو لوگ لڑنے جاتے ہیں وہ اپنے بیوی بچوں حتیٰ کہ شیرخواروں کو ساتھ نہیں رکھتے اور نہ ہی بہتر(72)افراد کے ساتھ ہزاروں افراد سے لڑنے کے لئے نکلتے ہیں۔گویا وہ لوگوں کی شعور کی بیداری کے لیے جارہے تھے۔ جب اس قافلے کو راستے میں ابن زیاد کی فوج نے روک لیا توحضرت حسینؓ نے ان کے سامنے اس صورت حال کو ختم کرنے کے لئے تین شکلیں تجویز کیں۔ایک یہ کہ حضرت حسینؓ واپس مدینہ تشریف لے جائیں۔دوسری شکل یہ کہ وہ یزید کے پاس چلے جائیں اور اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیں۔تیسری شکل یہ کہ حضرت حسینؓ سرحدات پر جا کر ملک چھوڑ دیں۔یہ تینوں شکلیں انتہائی معقول تھیں اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حسینؓ باوقار طریقے سے لڑائی کو روکنا چاہتے تھے۔مگر ابن زیاد بے عزتی پر اتر آیا اور اس پراصرار کیا کہ حضرت حسینؓ پہلے بیعت کریں ،ہتھیار اس کے حوالے کریں،تب کوئی اور بات ہوگی۔چنانچہ اس کی فوجوں نے حضرت حسینؓ کے قافلے کو گھیرا ،اس پر حملہ کیا اور یہ المناک سانحہ پیش آیا۔
درج بالا سرگزشت سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔کہ حضرت حسینؓآخر دم تک لڑائی کو ہر باوقار ممکن طریقے سے روکنے کی کوشش کرتے رہے ۔ انہوں نے کسی پر حملہ نہیں کیا بلکہ اُن پر حملہ کیا گیا۔اُس وقت تک انہوں نے کسی سے بھی امارت کی بیعت نہیں لی تھی۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ مکہ و مدینہ کے تمام اکابر صحابہؓ نے حضرت حسینؓ کو اس سفر سے منع کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔اس لئے کہ وہ اس میں پنہاں خطرات کو جانتے تھے۔
یہ تمام تفصیلات مولانا، عتیق الرحمان سنبھلی ابن مولانا منظور نعمانی کی کتاب’’ واقعہ کربلا اور اُس کا پس منظر‘‘ میں ملا حظہ کی جاسکتی ہیں۔
تیسرا اعتراض یہ ہے کہ آج کے مسلمان حکمران بزدل ہیں۔دشمن سے لڑنے کا حوصلہ ان میں نہیں۔جنگ نہیں کرتے۔اس لئے ہمیں خود آگے بڑھ کر جنگ شروع کرنا ہوگی۔حکومتی اعلان کے انتظار میں ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرکر نہیں بیٹھ سکتے۔کیا حکمرانوں کے انتظار میں ہم جہاد چھوڑ دیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے موقع پر پروردگار نے ہمیں صبر کی تلقین کی ہے۔ یہ تلقین قرآنی مجید میں ایک سو مرتبہ سے زیادہ آئی ہے۔ ایسے موقع پر ہمارا کام یہ ہے کہ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کے لیے کسی دشمن ملک سے جنگ کرنا لازم ہے، تو ہم اس کی طرف باربار حکومت کی توجہ دلائیں گے اور ہر پُرامن طریقے سے حکومت پر دباؤ ڈالیں گے۔ اگر اس کے باوجود حکومت جنگ کا اعلان نہیں کرتی، تو ہم ہر پُرامن طریقے سے حکومت کی تبدیلی کی جدوجہد کرسکتے ہیں۔ جمہوری ممالک میں تو حکومت کی تبدیلی کی جدوجہد کا راستہ ہر وقت کھلا ہوتا ہے۔
تاہم اگر ہماری کوشش کے باوجود حکومت جنگ کا اعلان نہیں کرتی، تو ہمیں قطعاً یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہم اپنی طرف سے گروہ بناکر جنگ کا اعلان کریں۔ ایسا اعلان بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور اس سے کسی مسلمان ملک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔
یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جب کوئی آزاد قوم اپنے اخلاق و کردار اور دنیوی طاقت کے اعتبار سے ایک اچھے مقام تک پہنچ جاتی ہے تو پروردگار ایسی قوم پر غلط کار حکمران مسلط نہیں رہنے دیتا۔ بلکہ پھر ایسے ملک کو اچھے حکمران مل جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی غلام قوم متحد ہوجائے، بنیادی انسانی اخلاقیات پر کاربند ہوجائے، اور عدم تشدد پر مبنی پُرامن جدوجہد کرے تو پروردگار ایسی قوم کے لیے آزادی کا راستہ کھول دیتا ہے کیونکہ پروردگار عادل ہے اور انصاف کرتا ہے۔
اتحاد، پُرامن جدوجہد اور صبر کی طاقت سے بڑھ کر اور کوئی طاقت نہیں۔ ممکن ہے کہ کامیابی حاصل کرنے میں کئی سال لگیں یا کئی نسلیں جدوجہد کریں۔ لیکن جب ایک قوم ان تینوں باتوں پر عمل پیرا ہو تو کسی نہ کسی وقت اللہ کی طرف سے اُس کے حق میں فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ یہی صحیح راستہ ہے۔ اس کے برعکس بے صبری اور جلد بازی سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، بلکہ یہ سراسر خسارے کا سودا ہے۔
موجودہ زمانے میں جتنے بھی مسلمان گروہ یا جماعتیں حکومتی اعلان کے بغیر مسلح جدوجہد کر رہی ہیں،ان سب نے اس دلیل کو بطور ڈھال استعمال کیا ہے۔اس لئے اس موقف پر نسبتاً گہرائی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم اس مضمون میں یہ بحث کر چکے ہیں کہ پروردگار نے پیغمبروں کو بھی یہ حق نہیں دیا کہ حکومت حاصل کئے بغیر جنگ کریں۔ان کو مسلح کاروائی کا حق تبھی ملا جب انہوں نے کسی علاقے میں اپنی حکومت بنا لی۔یہ بات واضح ہے کہ ہر پیغمبر کے کارِدعوت کے وقت،حکومت ان کے بدترین مخالفین کے پاس تھی، جو ہر طرح کے غلط کاموں میں مصروف ہوتے تھے۔تب بھی کسی پیغمبر کو ان کے خلاف یا کسی بھی دشمن کے خلاف مسلح کاروائی کا حق نہیں ملا۔کسی مسلمان کا ایمان کسی پیغمبر کے ایمان سے بڑھ کر نہیں اور آج اسلام کا کوئی دشمن کسی پیغمبر کے دشمن سے بڑھ کر مسلمانوں سے دشمنی نہیں کر سکتا۔چنانچہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو حق پروردگار نے اپنے پیغمبروں کو نہیں دیا،وہ آج کے مسلمانوں کو حاصل ہوجائے۔پیغمبروں کے ایمان کے مقابلے میں ہمارا ایمان بھلا کیا حیثیت رکھتا ہے،اور ان کی جدوجہد کے مقابلے میں ہماری جدوجہد کیا مقام رکھتی ہے، جب کہ ان کو پروردگار کی براہ راست مدد حاصل تھی۔ان سے بڑھ کر دین پر عمل پیرا کون ہو سکتا تھا؟۔اس کے باوجود ان کو بھی یہ اجازت نہیں تھی کہ حکومت حاصل کئے بغیر اعلانِ جنگ کریں۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ انتہائی متقی اور پرہیزگار مسلمانوں کے کسی گروہ کے لئے بھی یہ لازم ہے کہ جب تک ان کے ہاتھ میں اقتدار نہ آجائے، تب تک ان کو خدا کی طرف سے کسی بھی مسلح کاروائی کی کوئی اجازت نہیں۔
اس معاملے کا دوسرا پہلو بھی سامنے لانا ضروری ہے۔وہ یہ کہ متفقہ اصول کے مطابق حدود کا نفاذاورجنگ کا فیصلہ کرنا کہ حکومت ہی کاکام ہے۔مثلاً سوال یہ ہے کہ اگر حکمران حدودکے نفاذ میں غفلت برت رہا ہے تو کیا کوئی فرد خود ہی کسی کو قتل کر سکتا ہے یادوسری حدود نافذ کر سکتا ہے؟۔ظاہر ہے اس کاجواب نفی میں ہے۔چنانچہ جو معاملہ حدودکے نفاذ کاہے،وہی جنگ کے اعلان کا ہے۔بلکہ جنگ کا مقام تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ کیونکہ اس میں تو انسانی جانوں کا معاملہ ہے۔چنانچہ اس معاملے میں صحیح بات یہی ہے کہ وقت کے حکمران کو متوجہ کیا جائے گا، اور اُسے قائل کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی، تاہم اُس کے حکم کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔
اس معاملے کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ جنگ کے ضمن میں اسلام نے جتنے بھی احکام دیے ہیں، وہ سب حکومت سے متعلق ہیں۔ کوئی پرائیویٹ تنظیم ان احکام پر پوری نہیں اتر سکتی۔ مثلاً اسلام میں دشمن سے معاہدہ کرنے کا ایک پورا قانون موجود ہے۔ اسی طرح صلح کا بھی قانون ہے۔ ان احکام پر صرف ایک حکومت ہی عمل کرسکتی ہے۔ اقتدار سے عاری کوئی گروہ ان احکام پر عمل نہیں کرسکتا۔ اگر اسلام میں پرائیویٹ جنگ کی کوئی گنجائش ہوتی ، تو اس کے دوسرے اہم پہلوؤں سے متعلق احکامات بھی لازماً نازل ہوئے ہوتے۔ جب کہ ایسا نہیں ہے۔
اس معاملے کا چوتھا پہلو یہ ہے کہ اگر اس طرح کے جنگ کی اجازت دے دی جائے تو پوری دنیا میں انارکی اور افراتفری کا دور دورہ ہوجائے گا۔ ہر جگہ لوگوں کے مسلح گروہ اپنی صوابدید پر فیصلے کرنے لگیں گے، اور سینکڑوں مسلح تنظیمیں وجود میں آجائیں گی۔ فرقہ بندی کا دور دورہ ہوجائے گا۔ حکومتی معاہدے اور احکامات مذاق بن جائیں گے۔ اس رخصت کی آڑ لے کر کئی ایسی مسلح تنظیمیں بھی وجود میں آجائیں گی جن کے خفیہ مقاصد انتہائی خطرناک ہوں گے، اور یوں یہ امت پارہ پارہ ہوجائے گی۔ اس کے اندر ہر جگہ کلاشنکوف کلچر کو فروغ ملے گا۔ یہ وہی چیز ہے جس کو قرآن مجید کی اصطلاح میں ’’آگ کے کنارے پر کھڑے ہونے‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایسی حالت میں دشمن کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی طاقت کو کچل کر رکھ دے۔
پس یہ موقف کہ اگر حکومت جنگ کا اعلان نہ کرے، تو ایسے اعلان کے بغیر بھی عام لوگ مسلح گروہ تشکیل دے کر اپنی صوابدید پر مسلح کاروائی کرسکتے ہیں، بالکل غلط اور نتائج کے اعتبار سے انتہائی خطرناک ہے۔
واضح رہے کہ یہ اس امت کے چاروں فقہی مذاہب کا متفقہ نقطہ نظر ہے۔ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی علماء سب کے سب اس معاملے میں بالکل متفق ہیں کہ جنگ کا اعلان صرف اور صرف حکمران کاکام ہے۔ حکمران کے علاوہ کسی کو جہاد کے اعلان کا حق نہیں ہے۔ اس اصول میں کسی رعایت، رخصت ، تحفیف، یا نرمی کی کوئی گنجائش نہیں۔
چوتھا اعتراض یہ ہے کہ جنگ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک اقدامی اور دوسری دفاعی۔ اقدامی جنگ کے لیے تو ریاست کے اعلان اور انتظام کی شرط ہے۔ مگر دفاعی جنگ سب پر فرض ہے، اور اس کے لیے صرف ’’نفیرِ عام‘‘ کی شرط ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جنگ اقدامی ہو یا دفاعی ، دونوں کا تعلق مسلمان ریاست سے ہے۔ ایک مسلمان ریاست جب دشمن پر حملہ کرتی ہے تو اسے ’اقدام‘ کہتے ہیں۔ اور جب دشمن آگے بڑھ کر کسی مسلمان ریاست پر حملہ کرتا ہے تو اس کے مقابلے میں جوابی کارروائی کو ’دفاع‘ کہتے ہیں۔ پچھلے زمانے میں ’’نفیرِ عام‘‘ کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اگر دشمن حملہ کرے تو ملک کے حکمران کی طرف سے خود بخود یہ حکم (standing order) سمجھا جائے کہ اُس نے جنگ کا اعلان کردیا ہے، لہٰذا ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ کسی دوسرے حکم کا انتظار کیے بغیر مزاحمتی جنگ شروع کردے۔ ’نفیر‘ کے معنی ’بگل‘ کے ہیں۔ گویا اس اصطلاح کے لفظی معنی یہ ہیں کہ جنگ کا بگل ہر عام آدمی کے لیے بج گیا ہے۔ یہ جنگ یقیناًفرض ہے، اس لیے کہ ریاست کا سب سے بڑا کام تو اپنی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہے۔ جب اُس کے وجود پر حملہ ہوجائے تو یہ بات لازم سمجھی جاتی ہے کہ وہ حملہ آور کا جواب دے گی۔
واضح رہے کہ آج سے سینکڑوں برس پہلے کے حالات میں ہمارے فقہا نے اقدامی اور دفاعی جنگ میں فرق کیا تھا۔ اُس وقت مواصلات کے ذرائع بہت محدود اور کمزور تھے۔ سرحدات ، دارالحکومت سے سینکڑوں میل دور ہوتے تھے۔ وہاں سے اطلاع پہنچتے پہنچتے اور دارالحکومت سے حکم پہنچنے تک بہت وقت لگ جاتا تھا۔ چنانچہ حاکموں سے بروقت ہدایات لینا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ اُس زمانے میں ہر حکومت کی یہ طے شدہ پالیسی ہوتی تھی کہ اگر اُس کی سرزمین پر کوئی دشمن حملہ کرے تو سرحدی کمانڈر اور وہاں کے رہنے والے لوگ فوری مزاحمت شروع کردیں، تاکہ اس دوران میں دارالحکومت کو اطلاع دی جاسکے اور باقاعدہ افواج حرکت میں آسکیں۔ ظاہر ہے کہ اُس زمانے کے حالات میں عقلِ عام (common sense) کی رو سے یہ بات بالکل ٹھیک تھی کہ جب سربراہِ مملکت سے رابطے کا فوری طریقہ موجود نہ ہو، ملک پر حملہ ہوا ہو، اور حاکم کی طرف سے یہ پالیسی آرڈر پہلے سے موجود ہو کہ ایسی حالت میں فوری مزاحمت شروع کردی جائے، تو اس موقع پر یہی لازم ہے کہ فوراً دشمن کا مقابلہ شروع کیا جائے۔ گویا اقدامی اور دفاعی جنگ کے درمیان میں فرق کا تصور آج سے سینکڑوں برس پہلے کا تھا۔ آج ایسا کوئی فرق موجود نہیں ہے۔ حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ مواصلات کے ذرائع کی ترقی کی وجہ سے سرحد سے ہر لمحے کی خبر ہیڈکوارٹر میں پہنچتی ہے۔ سرحد پر باقاعدہ فوج گشت کرتی ہے، اور ہر ملک اپنی حفاظت کے لیے تیار فوج رکھتا ہے۔ چنانچہ موجودہ حالات میں دفاعی یا اقدامی جنگ میں کوئی فرق نہیں ہے۔
تاہم اس ضمن میں اہم ترین بات یہ ہے کہ جنگ کے معاملے میں قرآن مجید میں نازل شدہ پہلی دونوں آیات کا تعلق اصل میں دفاعی جنگ ہی سے ہے۔ سورۃ حج، آیات39,40 میں یہ اجازت دی گئی کہ اگر مسلمانوں کی ریاست پر حملہ ہوتو مسلمان حکومت کو بھی جنگ کی اجاز ت ہے۔ اس کے بعد سورۃ بقرہ،آیت نمبر190میں یہ ہدایت ایک حکم کی صورت میں یوں دی گئی کہ جو لوگ تم سے لڑنے کے لیے آئیں، تم بھی اُن سے لڑو۔ ان دونوں آیتوں کی مخاطَب ریاست ہی ہے۔ چنانچہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ دفاعی جنگ بھی دراصل ریاست ہی کاکام ہے۔
ایک روایت کے مطابق حضورؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جہاد جاری ہے، جب سے اللہ نے مجھے بھیجا ہے یہاں تک کہ میری امت کے آخری لوگ دجال سے جنگ کریں گے۔ اسے نہ تو ظالم کا ظلم باطل کرسکے گا، اورنہ عادل کا عدل‘‘۔ (ابی داؤد، حدیث نمبر2170)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قیامت تک ایسے حالات پیدا ہوتے رہیں گے جب مسلمان حکمرانوں کو وقتاًفوقتاًظلم کے خلاف جنگ کی ضرورت پیش آتی رہے گی۔ یہ بات بالکل صحیح ہے۔ کیونکہ یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے اور اس میں کبھی کبھی ایسے حالات پیش آتے رہیں گے۔ تاہم اس حدیث کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ مسلمان اس دنیا میں ہر وقت مسلسل جنگ میں مصروف رہیں گے۔ ایسا نہ تو حضورؐ کے دور میں تھا، اور نہ صحابہ کرامؓ کے دور میں ایسا ہوا۔ اُس وقت بھی بسااوقات کئی کئی مہینوں کے بعد ایک دو دن، یا زیادہ سے زیادہ چند دنوں کے لیے جنگ ہوتی تھی، اور درمیان میں امن ہوتا تھا۔ اسی طرح حضرت عثمانؓ کے آخری دور میں، اور حضرت علیؓ کے پورے دورِ حکومت میں غیر مسلموں کے خلاف کوئی لڑائی نہیں لڑی گئی۔
اسی طرح جب حضورؐ نے یہ ارشاد فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے، تو اس کا ایک مخصوص پسِ منظر تھا۔ اصل روایت یوں ہے کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا:
’’دشمن سے جنگ کی تمنا نہ کرواور اللہ سے عافیت مانگو۔ ہاں اگر اُن سے تمہارا سامنا ہو تو پھر ثابت قدم رہو اور جان لو کہ جنت تلواروں کی چھاؤں میں ہے‘‘۔ (بخاری، حدیث نمبر2801)
گویا اس روایت کے مطابق تو حضورؐ نے جنگ کی تمنا کو بھی ناپسندیدہ قرار دیا۔ البتہ اگر جنگ کی ضرورت پیش آئے، تو ایسے موقع پر ہر سپاہی کو چاہیے کہ وہ پوری طرح ثابت قدم رہے۔ ایسے موقع پر اُس کی ثابت قدمی ہی اُس کے لیے ثواب کا ذریعہ بنے گی۔