O دوسرا اصول:بین الاقوامی معاہدات کی پابندی
اسلام نے اس بات پر بڑا زور دیا ہے۔ کہ جنگ سے بھی زیادہ ضروری چیز دوسری قوموں سے کئے گئے معاہدوں کو پورا کرنا ہے۔ یہ لازم ہے کہ جس قوم سے جو بھی معاہدہ ہوا ہو،اُ س کی، لفظ و معنی کے پورے احترام کے ساتھ، پابندی کی جائے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ اگر کسی قوم سے مسلمانوں کی حکومت کاکوئی معاہدہ ہو، اور وہ قوم اپنے ہاں کے مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہی ہو تواُس قوم کے خلاف جب تک کہ معاہدہ قائم ہے،جنگ کرنادین کی رو سے ممنوع ہے۔ ارشادہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰٓءِکَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یُہَاجِرُوْا مَا لَکُمْ مِّنْ وَلاَیَتِہِمْ مِّنْ شَیْْءٍ حَتّٰی یُہَاجِرُوْا وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْْکُمُ النَّصْرُ اِلاَّ عَلٰی قَوْمٍ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ()(سورۃ انفال -8آیت72)
’’جن لوگوں نے ایمان قبول کیا، ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں اپنے مال و جان سے جدوجہد کی (یعنی مہاجرین مکہ) ،اور جن لوگوں نے ان کو پناہ دی اور مدد کی (یعنی انصار مدینہ)، یہی لوگ ایک دوسرے کے ولی ہیں۔رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے، لیکن انھوں نے ہجرت نہیں کی، ان سے تمھارا ولایت کا تعلق اُس وقت تک نہیں ہوگا جب تک وہ ہجرت کرکے (ریاست مدینہ میں) نہ آجائیں۔تاہم اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر لازم ہے، لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جن سے تمھارا معاہدہ ہو۔جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اسے دیکھ رہا ہے‘‘۔
اگر مسلما ن حکومت کو کسی دشمن قوم سے یہ خطرہ ہو کہ وہ معاہدہ توڑ کر دھوکہ سے حملہ کرے گا،اُس صورت میں مسلما ن حکومت پر یہ لازم ہے کہ وہ علی الاعلان پہلے معاہدہ ختم کردے اور اس کے بعد کوئی جنگی کاروائی کرے ۔۔ارشاد ہے:
وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَۃً فَانْبِذْ اِلَیْْہِمْ عَلٰی سَوَآءٍ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الخَآءِنِیْنَ()(سورۃ انفال-8آیت58)
’’جب تمھیں کسی قوم سے بدعہدی کا اندیشہ ہوتو اس کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو۔یقیناًاللہ بدعہدوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔
اس آیت کی تشریح میں مولانا مفتی محمد شفیع فرماتے ہیں:
’’ اس آیت میں رسول ؐ کو جنگ و صلح کے قانون کی ایک اہم دفعہ بتلائی گئی ہے جس میں معاہدہ کی پابندی کی خاص اہمیت کے ساتھ یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ اگر کسی وقت معاہدہ کے دوسرے فریق کی طرف سے خیانت یعنی عہد شکنی کا خطرہ پیدا ہوجائے تو یہ ضروری نہیں کہ ہم معاہدہ کی پابندی کو بدستور قائم رکھیں ۔ لیکن یہ بھی جائز نہیں کہ معاہدہ کو صاف طور پر ختم کر دینے سے پہلے ہم ان کے خلاف کوئی اقدام کریں بلکہ صحیح صورت یہ ہے کہ ان کو اطمینان و فرصت کی حالت میں اس سے آگاہ کر دیا جائے کہ تمہاری بدنیتی یا خلاف ورزی ہم پر ظاہر ہو چکی ہے یا یہ کہ تمھارے معاملات مشتبہ نظر آتے ہیں اس لئے ہم آئندہ اس معاہدے کے پابند نہیں رہیں گے ۔تم کو بھی ہر طرح سے اختیار ہے کہ ہمارے خلاف جو کاروائی چاہوکرو۔۔۔۔۔۔
گویا جس قوم کے ساتھ کوئی معاہدہ صلح ہو چکاہے اس کے ساتھ مقابلہ میں کوئی جنگی اقدام کرنا خیانت میں داخل ہے اوراللہ تعالیٰ خیانت کرنے والو ں کو پسند نہیں کرتے اگرچہ یہ خیانت دشمن کافروں ہی کی حق میں کی جائے،وہ بھی جائز نہیں البتہ اگر دوسری طرف سے عہد شکنی کا خطرہ پیدا ہو جائے توایسا کیا جا سکتا ہے کہ علانیہ ان کو آگاہ کردیں کہ ہم آئندہ معاہدہ کے پابند نہیں رہیں گے۔مگر یہ اعلان اس طرح ہو کہ مسلمان اور دوسرا فریق اُس میں برابر ہوں۔یعنی ایسی صورت نہ کی جائے کہ اس اعلان و تنبیہ سے پہلے ان کے مقابلہ کی تیاری کر لی جائے اور وہ خالی الذہن ہو نے کی بنا پرتیاری نہ کرسکیں گے بلکہ جو کچھ تیاری کر نا ہے وہ اس اعلان و تنبیہ کے بعد کریں‘‘۔ ( ’’ معارف القرآن ‘‘ جلد چہارم صفحہ۔269)
اسی آیت کی تشریح میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ایک تفصیلی بحث کے بعد تحریر کرتے ہیں:
’’ اس آیت کی رو سے ہمارے لئے یہ کسی طرح جائز نہیں ہے کہ اگر کسی شخص یا گروہ یا ملک سے ہمارا معاہدہ ہو اور اس کے طرز عمل سے یہ شکایت لاحق ہوجائے کہ وہ عہد کی پابندی میں کوتاہی برت رہاہے یا یہ اندیشہ پیدا ہو جائے کہ وہ موقع پاتے ہی ہمارے ساتھ غداری کر بیٹھے گا تو ہم اپنی جگہ خود فیصلہ کرلیں کہ ہمارے اور اس کے درمیان معاہدہ نہیں رہا اور یکایک اس کے ساتھ وہ طرز عمل اختیار کرنا شروع کردیں جو معاہدہ نہ ہو نے کی صورت ہی میں کیا جاسکتا ہو۔ اس کے برعکس ہمیں اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ جب ایسی صورت پیش آئے تو ہم کوئی مخالفانہ کاروائی کرنے سے پہلے فریق ثانی کو صاف صاف بتا دیں کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اب معاہدہ باقی نہیں رہا،تاکہ فسخ معاہدہ کا جیسا علم ہم کو حاصل ہے ویسا ہی اس کو بھی ہوجائے اور وہ اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ معاہدہ اب بھی باقی ہے۔ اسی فرمان الٰہی کے مطابق نبیؐ نے اسلام کی بین الااقوامی پالیسی کا یہ مستقل اصول قرار دیا تھا کہ ’’جس کسی قوم سے معاہدہ ہو ااسے چاہیئے کہ معاہدہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے عہد کا بند نہ کھولے یا نہیں تو ان کا عہد برابری کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی طرف پھینک دے‘‘ پھر اسی قاعدے کو آپ نے اور زیادہ پھیلا کر تمام معاملات میں یہ اصول قائم کیا تھا کہ لاتخن من خانک’’جو تجھ سے خیانت کرے،تم اس سے خیانت مت کرو‘‘ ۔
(۔۔۔)مزید برآں اگر کسی معاہد قوم سے کسی معاملہ میں ہماری نزاع ہوجائے اور ہم دیکھیں کہ گفت وشنید یا بین الا اقوامی ثالثی کے ذریعے سے وہ نزاع طے نہیں ہو تی یا یہ کہ فریق ثانی اس کوبزور طے کرنے پر تلاہوا ہے، تو ہمارے لئے یہ بالکل جائز ہے کہ اس کو طے کرنے میں طاقت استعمال کریں،لیکن آیت مذکو رہ بالاہم پر یہ اخلاقی ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ ہمارا یہ استعمال طاقت صاف صاف اعلان کے بعد ہونا چاہیئے،اور کھلم کھلا ہونا چاہیئے۔چوری چھپے ایسی جنگی کاروائیاں کرنا جن کا اعلانیہ اقرار کرنے کیلئے ہم تیار نہ ہوں ،ایک بد اخلاقی ہے جس کی تعلیم اسلام نے ہم کو نہیں دی ہے‘‘۔ ( تفہیم القرآن۔ جلد دوم صفحہ155-153)
قتال کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ایک کامیاب جنگی حکمت عملی کے تمام اسباب و لوازم پورے ہوں اور اس بات کا پورا پورا امکان نظر آرہا ہو کہ مسلمان یہ جنگ جیت کر ظلم کا قلع قمع کر دیں گے۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ عددی طاقت پوری ہو۔ ضروری اسلحہ اور دوسرا سامان جنگ موجودہو۔ گردوپیش کے حالات سازگار ہوں اور ایک کامیاب اقدام کے لئے جتنے کچھ وسائل کی ضروت ہے، وہ بھی مہیا ہوں اور اگر فوج کسی ایسی صورت حال میں گِھر جائے جہاں محض اُن کی جانیں ضائع ہونے کا خطرہ ہو تو اُس ہنگامی صورت حال سے فوج کو ایک حکمت کے ساتھ نکالنا بھی ضروری ہے۔ گویا جنگ خود کشی کا نام نہیں، یہ محض شوق وجذبے کا نام بھی نہیں بلکہ یہ ایک انتہائی سنجیدہ کاروائی ہے جس میں اپنی پوری پوری ذہنی، سیاسی اور فوجی صلاحیتیں لگانا لازم ہے۔
قرآن مجید نے جگہ جگہ اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اور حضورؐ کی پوری زندگی اس حکمت عملی کی عمدہ ترین تصویر ہے ۔جہاں تک جنگی ساز و سامان کاتعلق ہے، اس بارے میں ارشادہے:
وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّااسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ لاَ تَعْلَمُوْنَہُمُ اللّٰہُ یَعْلَمُہُمْ (سورۃ انفال -8آیت60کا ایک ٹکڑا)
’’تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ فوج، اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو، تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں پر تمہاری ہیبت قائم رہے۔اِن (کھلے دشمنوں کے) علاوہ تمہارے کچھ دوسرے دشمن بھی ہیں جنہیں تم نہیں جانتے، مگر اللہ جانتا ہے۔‘‘
اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان حکومت کی عددی اور فوجی طاقت دشمنوں کے مقابلے میں ایک ایسے تناسب سے موجود ہو جس سے مسلمان حکومت کے جنگ جیتنے کی واضح توقع ہو۔ اسلام کے بالکل ابتدائی زمانے میں جب صحابہ کرامؓ کے ایمان کا معیارانسانیت کی تاریخ میں سب سے اُونچا تھا، اُس وقت پرودگار کا ارشاد تھا کہ ایک اور دس(1:10) کی نسبت میں بھی وہ دشمن پر غالب آئیں گے ۔ بعد میں جب ایمان کی وہ صوررت نہ رہی تو پروردگار نے فرمایا کہ اب ایک اور دو کی نسبت ہے۔ یعنی اگر دشمن کی عددی طاقت دُگنی سے زیادہ ہے تو دشمن کے خلاف لڑائی لازم نہیں، بلکہ کسی اور حکمتِ عملی کو کام میں لانا چاہیے۔ ارشاد ہے:
یٰٓاَ یُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صَابِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِاءَتَیْْنِ وَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّاءَۃٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُوْنَ() اَلْءٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًا فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّاءَۃٌ صَابِرَۃٌ یَّغْلِبُوْا مِاءَتَیْْنِ وَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ اَلْفٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفَیْْنِ بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ مَعَ الصَّابِرِیْنَ(سورۃ انفال -8آیات66,65)
’’اے نبیؐ، ان مومنوں کو جنگ پر ابھارو۔اگر تمھارے بیس آدمی صابر ہوں گے تووہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگرتم میں سے سو آدمی ایسے ہوں تو وہ اِن منکرینِ حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری ہوں گے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ منکرینِ حق، تفقہ (یعنی سمجھ بوجھ) سے محروم ہیں۔
(اچھا،) اب اللہ نے تمھاری ذمہ داری ہلکی کردی اور اس نے جان لیا کہ تم میں کمزوری ہے۔ پس اگر تمھارے سو افراد صابر ہوں تو وہ دوسو پر اور ہزار آدمی ایسے ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے دوہزار پر غالب آجائیں گے۔ یقیناًاللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔
آج مسلمانوں کی جو کمزور ایمانی صورت حال ہے، اور سمجھ بوجھ اور صبر کے اعتبار سے وہ جس مقام پر ہیں،اس کے پیش نظر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت بمشکل ایک نسبت ایک(1:1) ہے۔ بہر حال ایک نسبت دو سے تو صورت ہر گز زیادہ نہیں ہو سکتی ،اس لیے کہ یہ تو صحا بہ کرامؓ کے ایمان کی نسبت تھی جبکہ ہم تو اُن کے پاؤں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہیں۔
اگر کہیں لڑائی میں جیتنے کا کوئی امکان نہ ہو تو یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کی فوج اور عوام کو محفوظ کرنے اور اُن کی جان بچانے کی کوئی مناسب حکمت عملی اپنائی جائے ۔
حضورؐ نے جنگ احزاب میں یہی کچھ کیا ۔اُس وقت دشمن کی فوجوں کی تعداد مسلمانوں کی فوج کی تعداد سے تین گنا زیادہ تھی۔ چنانچہ مسلمانوں نے لڑنے کے بجائے اپنے آپ کو خندق میں محفوظ کر لیا اور اس طرح اپنے آپ کو بچاکر جنگ سے گریز کا راستہ اختیار کیا۔
گویا جنگ خود کشی ، جذبا تیت او رخواہ مخواہ خون بہانے کا نام نہیں۔یعنی قتال بجائے خود مقصد نہیں اگر اس سے ظلم کے خاتمے کی واضح توقع نہ ہو ۔
گردو پیش کے حالات کاسازگارہونا بھی بہت ضروری ہے۔ اسی لیے حضورؐ نے کئی مشرک قبائل اور یہودی گروہوں سے معاہدے کئے۔اور کوئی بھی حملہ اُس وقت تک نہ کیا ،جب تک اُس قبیلے یا گروہ کو بالکل ہی تنہا نہ کر دیا ۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان بہت غمگین تھے ،کیونکہ اس کی شرائط اُن کے نزدیک بے عزتی کے مترادف تھیں۔ لیکن حضورؐ جانتے تھے کہ اس معاہدے کے نتیجے میں قریش با لکل تنہا ہو جائیں گے۔ بالکل یہی ہوا، اور پھر جب حضورؐ نے مکے پر حملہ کیا تو اُس وقت قریش باقی عرب قبائل سے بالکل کٹ چکے تھے اور مسلمانوں کی عددی و جنگی طاقت اُن سے کہیں بڑھ کر تھی۔
اگر دشمن یہ پیش کش کرے کہ وہ متنازعہ امور بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے،اور مسلمان حکومت یہ سمجھتی ہو کہ صلح کی پیش کش خلوص پر مبنی ہے، اور دشمن واقعتا متنازعہ امور مکالمے کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے، محض جنگی چال کے طور پر ایسا نہیں کررہا، تو اس کی پیش کش قبول کرلی جائے۔
ارشاد ہے:
فَاِنِ اعْتَزَلُوْکُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ وَاَلْقَوْا اِلَیْْکُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ عَلَیْْہِمْ سَبِیْلاً()(سورۃ نساء-4آیت90 کا ایک ٹکڑا )
’’اس لیے(اے مومنو)، اگر یہ لوگ تم سے کنارہ کش رہیں،تم سے جنگ نہ کریں اور تمھاری طرف صلح کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ تم کو بھی ان کے خلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں دیتا‘‘۔
مزید ارشاد ہے:
وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ() وَاِنْ یُّرِیْدُوْٓا اَنْ یَّخْدَعُوْکَ فَاِنَّ حَسْبَکَ اللّٰہُ ہُوَ الَّذِیْٓ اَ یَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ()(سورۃ انفال -8آیات62,61)
’’( اے نبی)، اگر دشمن صلح کی طرف جھکے تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جاؤ۔اللہ پر بھروسا رکھو۔ یقیناًوہ سننے اور جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمھارے لیے اللہ کافی ہے۔وہی تو ہے جس نے اپنی مددسے اور ان مومنوں کے ذریعے سے تمھاری امداد کی اور ان مومنوں کے دل آپس میں جوڑ دیے‘‘۔
غیر محاربین(Non-combatants)کو قتل کرنا یا نقصان پہنچانا منع ہے۔ارشاد ہے:
وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ()(سورۃبقرہ-2آیت190)
’’اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جوتم سے لڑیں، مگر اس میں کوئی زیادتی مت کرو۔‘‘
زیادتی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اُن لوگوں کو قتل کیا جائے جو جنگ میں براہِ راست شریک نہیں ہیں۔ اسی کی تشریح میں حضورؐ نے جنگ کے موقع پر لوٹ مار کرنے سے منع فرمایا، کسی دشمن کی لاش کی بے حرمتی اور اُس کے بدن کے ٹکڑے کرنے سے منع فرمایا، دشمن کو ظالمانہ طریقے سے مثلاً آگ میں جلاکر مارنے سے منع فرمایا۔ حضورؐنے عورتوں اور بچوں کے قتل سے بھی سختی کے ساتھ منع فرمایا۔ اسی طرح جب حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنی فوج کو لڑائی کے لیے بھیج رہے تھے تو انہوں نے حکم دیاکہ لڑائی میں شریک افراد کے علاوہ کسی کو قتل نہ کیا جائے۔
اسی طرح پرامن اور غیر جانبدار ممالک کے خلاف جنگ کرنا بھی جائز نہیں۔
ارشاد ہے:
لَا یَنْہَاکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ أَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ() اِنَّمَا ےَنْھَا کُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِےْنَ قَاتَلُوْکُمْ فِیْ الدِّےْنِ وَ اَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِےَارِکُمْ وَظَاہَرُوْا عَلیٰ اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْھُمْ وَ مَنْ یَّتَوَلَّھُمْ فَاُولٰءِکَ ھُمُ الظَّالِمُوْن (سورۃممتحنہ -60آیات9,8)
’’ اے اہلِ ایمان، اللہ تمھیں اِس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور انصاف کا برتاؤ کرو جنھوں نے دین کے معا ملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔
اللہ تو تمھیں صرف اِس بات سے روکتا ہے کہ تم اُن لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے، تم کو تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ ایسے دشمنانِ دین سے جولوگ بھی دوستی کریں گے، وہی ظالم ہیں۔‘‘
مزید ارشاد ہے:
ٌ اَوْ جَآءُ وْکُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُہُمْ اَنْ یُّقَاتِلُوْکُمْ اَوْ یُقَاتِلُوْا قَوْمَہُمْ وَلَوْ شَآءَ اللّٰہُ لَسَلَّطَہُمْ عَلَیْْکُمْ فَلَقَاتَلُوْکُمْ فَاِنِ اعْتَزَلُوْکُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ وَاَلْقَوْا اِلَیْْکُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ عَلَیْْہِمْ سَبِیْلاً()(سورۃنساء -4آیت90 کا ایک حصہ)
’’جو لوگ اس حال میں تمھارے پاس آئیں کہ وہ لڑائی سے دل برداشتہ ہوں،نہ تم سے لڑنا چاہتے ہوں ،اور نہ اپنی قوم سے۔ اگر اللہ چاہتا تو ان کو تم پر دلیر کردیتا اور وہ بھی تم سے لڑتے۔اس لیے اگر یہ لوگ تم سے کنارہ کش رہیں،تم سے جنگ نہ کریں اور تمھاری طرف صلح کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ تم کو بھی ان کے خلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو ملک ہمارے ساتھ امن سے رہنا چاہتا ہے، تو ہمارے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ ہم بھی اُس ملک کے ساتھ امن سے رہیں۔
قرآن مجید کے مطابق رجب،ذی قعد،ذی الحج اور محرم محترم مہینے ہیں۔جن میں حج،وعمرہ کے لئے سفر کیا جاتا ہے۔اس لئے ان مہینوں میں اپنی طرف سے جنگ نہیں چھیڑنی چاہئیے۔ارشاد ہے:
یَسْءََلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ۔(سورۃ بقرہ 2آیت217 کا ایک حصہ)
’’وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ محترم مہینوں میں جنگ کا کیا حکم ہے؟کہہ دو کہ اس میں جنگ بہت بری بات ہے‘‘۔
اگر کوئی دشمن ایسا جنگی طریقہ استعمال کرے جو عام حالات میں مسلمانوں کے لئے ناروا ہے تو مسلمان ریاست بھی اسی قدر وہ طریقہ استعمال کر سکتی ہے۔مثلاًاگر دشمن نے محترم مہینوں میں جنگ چھیڑ دی تو مسلمان ریاست بھی اس کا جواب دے سکتی ہے۔
ارشاد ہے:
اَلشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ() (سورۃبقرہ-2آیت194 )
’’محترم مہینوں کا بدلہ محترم مہینے ہی ہیں۔اسی طرح دوسری حرمتوں کے بدلے ہیں۔اس لیے جو تم پر زیادتی کریں،انھیں اس زیادتی کے برابر ہی جواب دو۔البتہ اللہ سے ڈرتے رہو۔اور جان لو کہ اللہ ان کے ساتھ ہے جو اس کے حدود کی پابندی کرتے ہیں۔‘‘