HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Dr. Farooq Khan

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

قتال فی سبیل اللہ ۔ تعریف اور اصول (حصہ اول)

باب دوم

’’قتال فی سبیل اللہ‘‘کا مطلب ہے،’’ اللہ کے راستے میں مسلح جنگ‘‘۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جنگ میں شریک انسان کو صرف اور صرف اپنے رب کی رضا جوئی مقصود ہوتی ہے، اور یہ اُن شرائط کے مطابق لڑی جاتی ہے جو ہم پر دین کی طرف سے لازم کی گئی ہیں۔حضورؐ نے فرمایا:

’’لڑائیاں دوقسم کی ہیں۔جس نے خالص اللہ کی رضاجوئی کے لئے لڑائی کی۔اس میں اپنے حکمران کی اطاعت کی،اپنا بہترین مال خرچ کیا،اپنے ساتھیوں کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کیا اور فساد سے اجتناب کیا، تو اس کا سونا جاگنا سب باعثِ اجر ہوگا۔اس کے برعکس جس نے دنیا کو دکھانے اور شہرت وناموری کے لئے تلوار اٹھائی،اپنے حکمران کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد پھیلایا تو وہ برابر بھی نہ چھو ٹے گا‘‘۔ (نسائی۔حدیث نمبر3188)


اللہ کے راستے میں جنگ کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگوں کو بزور مسلمان کیا جائے یا جمہوری حکومتوں کو ختم کرکے غیر مسلموں پر مسلمانوں کی حکومت قائم کی جائے۔کیونکہ قرآن مجید نے انفرادی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں میں ہر انسان کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی زندگی گزار ے، بشرط یہ کہ وہ فساد فی الارض کا مرتکب نہ ہو،یعنی اس کے اقدامات سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچے۔قرآن مجید نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ دنیا کی تمام اقوام کے ساتھ ہر معاملے میں انصاف کابرتاؤروارکھیں۔(ملاحظہ ہو بقرہ2:256۔مائدہ8:5۔ اعراف7:37۔ یونس108:10۔ کہف29:18 ،107۔ حٰم سجدہ40:41۔ شوریٰ15:42۔ مدثر55,54:74 دہر۔29,3:76 ۔ النبا39:78۔ غاشیہ22,21:88 اور کئی دوسری آیات)۔ جنگ کی درجِ ذیل صورتوں کو قرآن مجید نے قتال فی سبیل اللہ قرار دیا ہے۔


1۔مدافعانہ جنگ:

جب ایک مسلمان ریاست پر حملہ ہوتو اسے اپنی مدافعت کا حق حاصل ہے۔


وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ()(سورۃ بقرہ -2آیت190)
’’ اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جوتم سے لڑیں، مگر اس میں کوئی زیادتی مت کرو، اس لیے کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘


مزید ار شاد ہے۔


اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرُ() نِالَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ اِلَّا اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ(سورۃ حج -20آیات40,39) 
’’ جن سے جنگ کی جا رہی ہے، اب اُن کو بھی جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی، اس لیے کہ اُن پر ظلم ہوا ، اور یقیناًاللہ اُن کی مدد پر پوری طرح قدرت رکھتا ہے۔ (یہ وہ لوگ ہیں) جو اپنے گھروں (یعنی سرزمینِ مکہ) سے بے قصور محض اس جرم کی بنا پر نکالے گئے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے۔‘‘


2۔مظلوم مسلمانوں کی حمایت:

اگر کسی ملک میں مسلمانوں پر ظلم وستم ہو رہا ہو، یا وہاں کے باشندوں کو حکومت کی طرف سے اسلام پر عمل کرنے اور اس کے فرائض کی بجاآوری سے روکا جا رہا ہو، تو ان کی حمایت کے لئے بھی جنگ کرنا جائز ہے۔

ارشاد ہے:


وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اَخْرِجْنَا مِنْ ہٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُہَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا()(سورۃ نساء -4آیت75)
’’آخرکیاوجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو دعا کررہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار، ہمیں ظالم باشندوں کی اس بستی سے نکال اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی ومددگار پیدا کر۔ ‘‘ 


3۔حضورؐ کے ذریعے اللہ کا اپنے ایک کام کو پورا کرنا:

اللہ اپنے ہر رسول کے ذریعے اس دنیا میں اپنا ایک کام انجام دیتا ہے۔حضورﷺ سے بحیثیتِ رسول یہ کام لیا گیاکہ آپؐ جزیرہ نمائے عرب میں اللہ کے دین کا بول بالا کریں گے،اوراسے قیامت تک کے لئے اسلام کا مرکزبنائیں گے تاکہ خانہ کعبہ، مسجد حرام اور مسجد نبوی شرک کی الائشوں سے محفوظ رہیں۔یہ خالصتاً ایک الٰہی کام تھاجس کو لازماً پایہ تکمیل تک پہنچنا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے حضورؐ کو خصوصی اختیارات دئے گئے ۔یہ تمام کام پروردگار کی نگرانی میں مکمل ہوا۔اس امر کی تفصیل علیحدہ باب میں آئے گی۔


قتال کے اصول:

قتال فی سبیل اللہ کوئی بدنظمی سے کیے گئے عاجلانہ اقدام کا نام نہیں، بلکہ اس کے چند اہم اصول ہیں۔یہ درج ذیل ہیں:

O پہلا اصول:صرف ریاست وحکومت کو جنگ کرنے کا حق حاصل ہے

جنگ کے ضمن میں پہلا اصول یہ ہے کہ اقتدار وحکومت سے عاری کسی گروپ یا تنظیم کو مسلح کاروائی کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اس اصول کو اس طرح بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ اسلام کے احکام کے مطابق قتال یعنی کسی مسلح کاروائی کا حق صرف حکومت کو ہے۔ حکومت کے بغیر قتال کاکوئی تصور نہیں۔ یہ لازم ہے کہ قتال کا اعلان حکومت کرے ۔ اس کامکمل انتظام بھی حکومت کے ذمے ہو۔ اور وہی اُس کی ہر حرکت کو کنٹرول کرے۔گویا اسلام میں پرائیویٹ جنگ کا کوئی تصور نہیں۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ پروردگار کی طرف سے حضورؐ کو قتال کی اجازت صرف مدنی دور میں دی گئی تھی جب آپؐ کو اقتدار مل گیا۔اس سے پہلے مکی دور کے تیرہ برسوں میں جب کہ آپؐ کے پاس اقتدار نہیں تھا،آپؐ کے لئے قتال ممنوع رہا۔اُس وقت اللہ نے مسلمانوں کو سورہ نساء کی آیت نمبر77کے مطابق یہ حکم دیا تھا کہ ’’کُفو اَےْدِےَکُمْ‘‘،یعنی اپنے ہاتھ لڑائی سے روکے رکھو۔ 

مفتی محمد شفیع فرماتے ہیں:


’’اس پر ساری امت کا اتفاق ہے کہ ہجرت مدینہ سے پہلے کفار کے ساتھ جہاد وقتال ممنوع تھا۔اس وقت کی تمام آیات قرآنی میں مسلمانوں کو کفار کی ایذاؤں پر صبر اور عفوودرگزر ہی کی تلقین تھی۔‘‘(معارف القرآن۔جلد اول۔صفحہ۔469)


قرآن مجید کی وہ ابتدائی آیات جن میں اس بات کی اجازت دی گئی کہ جارحیت کے مقابلے میں جنگ کا اقدام جائز ہے،سورہ حج میں ہیں۔ارشاد ربانی ہے:


اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرُ() نِالَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ اِلَّا اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوَاتٌ وَّمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ()(سورۃ حج -22آیات39-40)
’’جن اہل ایمان پرجنگ مسلط کی جارہی ہے، ان کو بھی جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی، اس لیے کہ اُن پر ظلم ہوا۔ اور یقیناًاللہ ان کی مدد پر پوری طرح قدرت رکھتا ہے۔ (یہ وہ لوگ ہیں) جو اپنے گھروں (یعنی سرزمینِ مکہ) سے بے قصور محض اس جرم کی بنا پر نکالے گئے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے۔
(اللہ ضرور اہل ایمان کی مدد کرے گا اور انھیں فتح بخشے گا، اس لیے کہ) اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا رہتا تو تمام خانقاہیں، گرجے، کنیسے اور مسجدیں جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے، مسمار کیے جاچکے ہوتے۔بے شک، اللہ ضرور ان لوگوں کی مددفرمائے گا جو اس کی مدد کے لیے اٹھیں گے۔بے شک، اللہ قوی اور غالب ہے‘‘۔


اس آیت کے چند الفاظ خاص طور پر غور طلب ہیں۔چنانچہ ان الفاظ کی وضاحت پیش کی جارہی ہے۔

’’اُذِنَ‘‘ کامطلب ہے’’اجازت دی گئی‘‘۔گویا اس سے پہلے جنگ کی اجازت نہیں تھی۔

’’الذین اخرجو من دیارھم‘‘ سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے ہجرت ہوئی،پھراقتدار ملا،اوراس کے بعد جنگ کی اجازت دی گئی۔

’’باَنھم ظلمو‘‘سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ اسلام میں قتال دراصل ظلم کے خلاف ہوتاہے۔

قتال کے ضمن میں دوسری ہدایت سورۃ بقرہ کی آیات190تا193اور216اور224میں نازل ہوئیں۔

ارشاد باری ہے:


وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ()(سورۃ بقرہ -2آیت190)
’’اﷲ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جوتم سے لڑیں، مگر اس میں کوئی زیادتی مت کرو،اس لیے کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘


انبیا کی پوری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ پروردگار نے اسلام کے سب سے بڑے علم برداروں یعنی پیغمبروں کو بھی یہ حق نہیں دیا کہ وہ حکومت حاصل کیے بغیر جنگ کریں۔اس لئے کسی پیغمبر نے بھی اقتدار کے بغیرجنگ کا اعلان نہیں کیا۔پیغمبروں کی مخالف اُن قوموں میں ہر قسم کی خرابیاں موجود تھیں، مگر کسی پیغمبر نے اُن خرابیوں کو دور کرنے کے لیے طاقت استعمال نہیں کی۔ اُن پیغمبروں پرظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ان کو ہر تکلیف کا نشانہ بنایا گیا۔اہل اقتدار کی طرف سے ان پر ہر طرح کی مصیبتیں ڈھائی گئیں مگر انہوں نہ تو کبھی کوئی مسلح اقدام کیا اور نہ کبھی اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا بدلہ لیا۔حتیٰ کہ ان کو اور ان کے ساتھیوں کو اپنا گھر بار اور وطن چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔تب بھی انہوں نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔اس لئے کہ پروردگار کی طرف سے انہیں صبر ہی کا حکم دیا گیا تھا۔

حضرت نوحؑ ،حضرت لوطؑ ،حضرت ہودؑ ،حضرت صالحؑ ،حضرت شعیبؑ ،حضرت ابراہیمؑ ،حضرت موسیٰؑ ،حضرت یونسؑ ،اورحضرت عیسیٰؑ کی پوری سرگزشت جنگ کے ذکر سے خالی ہے۔حضرت موسیٰؑ نے اُس وقت تک جنگ کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا جب تک انہوں نے بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر ایک آزاد علاقے یعنی صحرائے سینا میں منظم نہیں کر لیا ۔حضرت عیسیٰؑ کو بھی چونکہ اقتدار نہیں ملا تھا اس لئے ان کی پوری زندگی بھی جنگ کے ذکر سے خالی ہے۔حالانکہ تورات جس پر وہ خود بھی عمل پیرا تھے اور دوسروں کو بھی اس پر عمل کی تعلیم دیتے تھے ، میں جنگ کا واضح حکم موجود تھا۔

جنگ کے لئے حکمران کی شرط بنی اسرائیل کے سامنے بھی اس قدر واضح تھی کہ جب ایک موقع پر انہوں نے اپنا کھویا ہوا ملک جنگ کے ذریعے دشمنوں سے واپس لینے کا تہیہ کرلیا تو انہوں نے اپنے نبی حضرت سمویل ؑ سے کہا کہ وہ ان کے لئے ایک حکمران مقرر کردیں، تاکہ اس کی سرکردگی میں وہ اپنے دشمنوں کے خلاف جنگ کرسکیں۔چنانچہ پروردگار نے ان کے لئے طالوت کو حکمران مقررکردیا۔یہ ذکر قرآن مجید میں سورۃ بقرہ، آیات 246تا251میں آیا ہے۔

مکی دور میں حضورؐ کے پاس اقتدار نہیں تھا،اس لئے ان تیرہ برسوں میں آپؐ نے کفار کی طرف سے ہر ظلم وستم کے باوجود کوئی مسلح اقدام نہیں کیا۔آپؐ نے صحابہ کو مکی دور میں انتہائی صبر ہی کی تلقین کی۔مثلاً جب ایک خاتون صحابیہ حضرت سمیہؓاور ان کے شوہر حضرت یاسر ؓ کو مشرکین نے نہایت ظالمانہ طریقے سے شہید کیا تو آپؐ نے بدلہ لینے کے بجائے ان کے دوسرے مظلوم رشتہ داروں سے کہا:’’اس ظلم کے بدلے میں تمھیں جنت کی بشارت دیتا ہوں‘‘۔

حکمران اور جنگ کے اس تصور کوحضورؐ نے اپنے ایک فرمان کے ذریعے اس طرح واضح کیا:


اِنَّمَاالْاِمَامُ جُنَّۃً، ےُقَاتَلُ مِنْ وَّرَاءَۃٍ وَےَتْقِیْ بِہِO(بخاری،رقم2957)
’’ حکمران درحقیقت ڈھال ہے۔قتال اس کے پیچھے رہ کے کیا جاتا ہے اور لوگ اپنے لئے اسی کی آڑ پکڑتے ہیں۔(یعنی جملہ معاملات میں اسی کے فیصلوں پر اعتماد کیا جاتا ہے اور اس کے فیصلوں کے مطابق جنگ و امن کا فیصلہ ہوتا ہے) ‘‘۔


اسی طرح ایک اور روایت کے مطابق حضورؐ نے ارشاد فرمایا: 


’’اَلْجِہَادُ وَاجِبٌ عَلَےْکُمْ مَعَہُ کُلِّ اَمِےْرً بِرَّاً کَانَ اَوْ فَاجِرًا وَاَنْ ھُوَ عَمَلُ الْکَبَاءِرً‘‘(ابی داؤد ۔حدیث نمبر2171)
’’تم پر اپنے ہر حکمران کے ساتھ جہاد لازم ہے، چاہے وہ نیک ہو یا گناہ گار۔ اور اگرچہ وہ کبیرہ گناہ بھی کرتا ہو‘‘۔ 


اسی طرح ایک اور روایت کے مطابق حضورؐ نے ارشاد فرمایا: 


’’لڑائیاں دو قسم کی ہیں۔ جس نے خالص اللہ کی رضاجوئی کے لیے لڑائی کی۔ اُس میں اپنے حکمران کی اطاعت کی، اپنا بہترین مال خرچ کیا، اپنے ساتھیوں کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کیا، اور فساد سے اجتناب کیا، تو اُس کا سونا اور جاگنا سب ثواب کا باعث ہوگا۔ اس کے برعکس جس نے دنیا کو دکھانے اور شہرت و ناموری کے لیے تلوار اٹھائی، اپنے حکمران کی نافرمانی کی، اور زمین میں فساد پھیلایا، تو ایسا شخص برابر بھی نہ چھوٹے گا‘‘۔ (نسائی۔ حدیث نمبر3188) 


اوپر بیان کیے گئے آیات اور احادیث کی بناء پر سب کے سب فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ جنگ صرف حکمران کی اطاعت میں کی جائے گی، اورکوئی بھی کاروائی حکمران کی اجازت کے بغیر نہیں کی جائے گی۔ اس معاملے میں اُمت کے سب گروہ مثلاً حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، اور دوسرے مسالک مکمل طور پر متفق ہیں۔ 

قرآن مجید میں دشمن سے صلح اور معاہدوں کے بارے میں جو ہدایات آئی ہیں اور جو قوانین مسلمانوں کو دیے گئے ہیں، ان پر صرف ایک حکومت ہی عمل درآمد کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہے۔اس پر تفصیلی بحث آگے آئے گی۔

اسلام کی واضح ہدایت کے مطابق مسلمانوں پریہ لازم ہے کہ ٹکڑوں میں نہ بٹیں اورفرقہ بندی میں مبتلا نہ ہوں۔اس کے برعکس ان میں اتحاد واتفاق ہونا چاہئے۔اس کی واحد صورت یہ ہے کہ وہ اپنی ریاست وحکومت کے مکمل وفادارر ہیں۔حکومت کی ہر غلطی کو پرامن طریقے پر دور کرنے کی کوشش کریں اور ہر اجتماعی معاملے میں حکومت کی ہدایات کی پیروی کریں۔

ارشاد باری ہے۔


وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْہَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیَاتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ() (سورۃ آل عمران-3آیت103)
’’اے مومنو، سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو۔فرقہ بندی میں نہ پڑو۔اللہ کی اس نعمت کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کی ہے کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ کے ایک گڑھے کے بالکل کنارے پر کھڑے تھے، لیکن اللہ نے تم کو اس آگ سے بچا لیا۔ اسی طرح اللہ اپنی ہدایات تمھارے لیے واضح کرتا ہے تاکہ تم سیدھے راستے پر رہو‘‘۔


وَاَطِیعُوْااللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِےْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا۔اِنَّ اللّٰہ مَعَ الصّٰبِرِےْنO(سورۃ انفال -8آیت46)
’’اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو۔آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔صبر سے کام لو۔اور یقیناًاللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔


اتحاد واتفاق کا سب سے اہم وقت دشمن کے خلاف جنگ کے موقع پر ہوتا ہے۔اگر اُس وقت کامل اتحاد نہ ہو تودشمن کے غلبے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔چنانچہ اگر جنگ یا صلح کا فیصلہ حکومت کی سطح پر ہو اور تمام رعایا اس کی پابندی کریں تو مسلمانوں کی ریاست خطروں سے محفوظ ہو جاتی ہے۔

یہ اصول کہ صرف ریاست ہی جنگ کے لئے مجاز ادارہ ہے،امت کی پچھلی تاریخ میں اہلِ علم کے ہاں اس درجے میں متفقہ رہا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی صدیوں میں کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا۔’’فقہ السنۃ‘‘ میں السید السابق لکھتے ہیں:


’’کفایہ فرائض کی تیسری قسم وہ ہے جس میں حکمران کا ہونا لازم ہے جیسے قتال اور اقامت حدود۔اس لئے اس کا حق تنہا حکمران کو حاصل ہے۔اس کے سوا کوئی شخص بھی یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ کسی دوسرے پر حد قائم کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہو‘‘(فقہ السنۃجلد 3۔صفحہ10)


مولانا ظفر احمد تھانویؒ نے’’اعلاء السنن‘‘جلد 12،صفحہ3سے صفحہ6تک’’باب فریضۃ الجھاد وادامہ مع کل امیر بر او فاجر‘‘کے عنوان کے تحت اس مسئلہ پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے اسی متفقہ موقف کا اظہار کیا ہے۔

B