HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Dr. Farooq Khan

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

موجودہ صورت حال پر دین کے اصولوں کا انطباق

تیرہواں باب 


یہ کتاب خالصتاً علمی نوعیت کی ہے، اس لیے اس میں امتِ مسلمہ کی موجودہ صورت حال کا حکمتِ عملی کے نقطہ نظر سے جائزہ نہیں لیا گیا۔ آج کے مسلمانوں کو سٹریٹیجی کے لحاظ سے کون سا راستہ اپنا نا چاہیے، اس موضوع پر راقم الحروف نے ’’امت مسلمہ، کامیابی کا راستہ‘‘ میں تفصیلی بحث کی ہے۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ کچھ اہم ترین معاملات کو خالصتاً اصولی اعتبار سے دیکھا جائے، کیونکہ ان معاملات کے متعلق دینی اصولوں کے عملی انطباق (Application) کے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں سوالات موجود ہیں۔ 


ملکوں کے درمیان سرحدات کا مسئلہ 

کچھ گروہوں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام میں ملکوں کی سرحدات کی کوئی اہمیت نہیں، اس لیے ہمیں یہ اجازت ہے کہ ہم بغیر کسی سے پوچھے اپنے ملک کی سرحد عبور کرسکتے ہیں، اور دوسرے ملک میں داخل ہوسکتے ہیں۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اس ضمن میں اصولی بات یہ ہے کہ جس طرح کسی کی اجازت کے بغیر کسی کے گھر اور اُس کی جائیداد میں داخل ہونا منع ہے، بالکل اسی طرح ہر ملک دراصل وہاں کے باشندوں کی اجتماعی ملکیت ہے، چنانچہ اس ملکیت میں بھی نظمِ اجتماعی یعنی حکومت کی اجازت کے بغیر داخل ہونا منع ہے۔ اگر کسی حکومت نے اس کے لیے ویزے اور پاسپورٹ کو ضروری قرار دیا ہے، تو اطیعو اللہ واطیعو الرسول واولی الامرمنکم کے تحت اس کی پابندی لازم ہے۔ 

اس کی طرف قرآن مجید نے سورہ انفال 8،آیات72تا75 میں بھی روشنی ڈالی ہے۔ یہ آیات اور ان کا ترجمہ صفحہ 10-11پر درج کیا گیا ہے۔ ان آیات کے مطابق یہ لازم قرار دیا گیا کہ صرف انہی مسلمانوں کو مدینے کی ریاست کا باشندہ قرار دیا جائے گا جو ہجرت کرکے اس ریاست کی حدود میں آجائیں گے۔ اس کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ جو مسلمان اس ریاست کی حدود سے باہر ہیں، اُن کو اس ریاست کی ولایت یعنی شہریت کے حقوق حاصل نہیں ہوں گے۔ البتہ اگر اُن کو دین پر عمل کے معاملے میں مشکلات کا سامنا ہو تو مدینے کی ریاست اُن کی مدد کرے گی۔ تاہم اس مدد کو بھی اس بات سے مشروط کیا گیا کہ اگر کسی غیر مسلم طاقت سے مسلمان ریاست کا امن کا سمجھوتہ ہو، تو اس معاہدے کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں۔ 

قرآن مجید کی ہدایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تعاونو علی البر والتقویٰ اور و لقد کرمنا بنی آدم کے تحت سب انسانوں اور اُن کی حکومتوں سے تعاون اور اچھا تعلق رکھا جاسکتا ہے۔ اس کے اندر دوسرا دائرہ امتِ مسلمہ کا ہے۔ ہر جگہ کے مسلمانوں کی دین پر عمل کرنے میں مشکلات کے معاملے میں مسلمان حکومتوں کے لیے ان کی مدد کرنا لازم ہے، تاہم یہ مدد بین الاقوامی امن معاہدوں سے مشروط ہے۔ اس کے اندر تیسرا دائرہ خاندان کا ہے جس میں رشتہ داروں کے آپس میں اضافی حقوق ہیں۔ اس کے اندر چوتھا دائرہ خود ایک فرد کا ہے جس کو قرآن مجید اور حضورؐ نے اُس کے حقوق وفرائض بتا دیے ہیں۔ چنانچہ ان سب دائروں کے حقوق و فرائض اور حدود کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ 


افغانستان کی موجودہ خانہ جنگی 

افغانستان کے اندر برسرِ پیکار دونوں فریقوں کے درمیان لڑائی دراصل خانہ جنگی ہے۔دونوں فریقوں کی صفوں میں علماء اور بہت اچھے مسلمان موجود ہیں۔ اس وقت بے شمار علماء ملا عمر کی حمایت کررہے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف بھی برہان الدین ربانی، مولانا صبغت اللہ مجددی ،عبدالرب رسول سیاف اور ہزاروں علماء ہیں۔ ان میں سے بیشتر علماء نے روس کے خلاف تحریکِ مزاحمت میں بھرپور حصہ لیا اور اس کی قیادت کی۔ طالبان کا معاملہ یہ ہے کہ اُن کے قبضے میں کچھ بکھرے سے علاقے تو ہوسکتے ہیں، تاہم کوئی ایسی مرکزی جگہ اور علاقہ نہیں جہاں اُن کی حکمرانی واضح طور پر موجود ہو۔ چنانچہ ان کی طرف سے لڑائی کو قتال فی سبیل اللہ نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح موجودہ افغان حکومت بھی حکومت کہلائے جانے کے قابل نہیں، اس لیے کہ وہ غیر ملکی افواج کے سہارے موجود ہے۔ 

اپنی اپنی لڑائی کے حق میں بھی دونوں فریق اپنے اپنے دلائل رکھتے ہیں۔ موجودہ افغان حکومت یہ دلیل رکھتی ہے کہ طالبان حکومت کے زیرِ سایہ القاعدہ پروان چڑھی جس نے نائن الیون کاکام کیا۔ نیز طالبان حکومت نے عوام کی رضامندی کے بغیر بہت سے علاقوں ،خصوصاً غیر پشتون خطوں پر قبضہ کیا،جب کہ ان خِطوں میں امن قائم تھا۔ اس کے برعکس طالبان کا موقف یہ ہے کہ غیر ملکی افواج کو کسی بھی صورت میں افغانستان کی سرزمین پر قبضہ کرنے کا حق نہیں تھا، اور اگر وہ آگئی ہیں تو ہم ان کے خلاف لڑیں گے۔ گویا دونوں فریقوں کے پاس اپنے اپنے دلائل موجود ہیں۔ 

ایسی ہی خانہ جنگی کی طرف سورہ الحجرات 49۔ آیت9 میں اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ آیت اس کتاب کے صفحہ نمبر21پر نقل کی گئی ہے۔اس آیت سے ہمارے لیے یہ ہدایت نکلتی ہے کہ جب مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں اس طرح کی لڑائی میں ملوث ہوجائیں، تو کسی بڑی مسلمان طاقت کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کے درمیان صلح کی پوری کوشش کرے ۔ اگر صلح کے بعد ان میں سے کوئی فریق صلح کو توڑ کر دوبارہ جنگ شروع کرے تو اُس کے خلاف اس بڑی طاقت کو بھی جنگ کرنی چاہیے۔ اگر صلح کی خلاف ورزی کرنے والا فریق دوبارہ صلح پر آمادہ ہوجائے تو ان کے درمیان ایک دفعہ پھر انصاف کے ساتھ مصالحت کرادی جائے۔ 

ظاہر ہے کہ اس وقت مسلمان ممالک میں کوئی طاقت دنیوی اعتبار سے اتنی بڑی نہیں کہ وہ طالبان اور موجودہ افغان حکومت کے درمیان سورہ حجرات کی ہدایت کے مطابق صلح کراسکے اور اس کی خلاف ورزی کی صورت میں خلاف ورزی کرنے والے فریق کو سزا بھی دے سکے۔

سوال یہ ہے کہ جب ایسی صورت حال ہو تو پھر کیا کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں ہمیں حضورؐ کے ارشادات سے جو رہنمائی ملتی ہے وہ یہ ہے کہ جب مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوجائے اور ملک میں طوائف الملوکی (انارکی) کا دوردورہ ہوجائے تو ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان لڑنے والے گروہوں میں سے کسی کا ساتھ نہ دے تاکہ ان گروہوں کی طاقت ختم ہوجائے۔ صحیح بخاری، کتاب الفتن میں حضرت حذیفہؓ بن یمان کی ایک تفصیلی روایت کے آخری فقرے یہ ہیں۔

 

’’میں نے حضورؐ سے پوچھا: اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو آپ مجھے کس بات کا حکم دیتے ہیں؟۔ آپؐ نے فرمایا: تم مسلمانوں کی جماعت اور اُن کے سربراہ کی اطاعت کرتے رہو۔ میں نے پوچھا: اگر نہ مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی (یعنی ایک صحیح حکومت) موجود ہو، اور نہ اُن کا کوئی (متفقہ) سربراہ ؟۔ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: ایسی صورت میں تم سب گروہوں سے علیحدہ ہوجاؤ، خواہ تمہیں درخت کی جڑیں ہی کیوں نہ چبانی پڑیں، حتیٰ کہ جب تمہیں موت آئے تو اسی حالت میں آئے(کہ تم کسی گروہ کے ساتھ نہ ہو)‘‘۔ 


حضورؐ کی یہ ہدایت بہت بڑی حکمت پر مبنی ہے، کیونکہ اس ہدایت پر عمل کرنے کے نتیجے میں دونوں فریقوں کی طاقت کمزور ہوجائے گی اور یوں دونوں کو آپس میں گفتگو پر آمادہ ہونا پڑے گا۔ 

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایسے موقعے پر ایک ایسے کمزور ملک کو کیا کرنا چاہیے جو دونوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے مطلوبہ طاقت نہ رکھتا ہو۔ درج بالا حدیث سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ ایسے مسلمان ملک کو بھی یہ چاہیے کہ وہ دونوں فریقوں میں سے کسی کی فوجی مددنہ کرے۔ اگر اس اصول کو پاکستان پر منطبق کیا جائے تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پاکستان کو دونوں فریقوں کی فوجی مدد نہیں کرنی چاہیے۔ گویا اگر پاکستان غیر ملکی افواج سے کوئی تعاون کررہا ہے تو اُسے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ دوسری طرف اُسے دوسرے فریق کا بھی ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ دونوں فریقوں کے لیے لڑائی بڑی مشکل اور مہنگی ہوجائے گی۔ اس طرح دونوں فریقوں کو مجبوراً ایک دوسرے سے مذاکرات کرنے پڑیں گے۔ ایسے صورت میں پاکستان ایک دیانت دارخیرخواہ ملک کا کردار نبھا سکتا ہے۔ 

فرض کیجئے کہ پاکستانی حکومت ایسا نہیں کرتی تو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ کیا ہمیں اس بات کی اجازت ہے کہ ہم پاکستانی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائیں۔ اس سوال کا جواب اس کتاب کے چوتھے باب میں آچکا ہے جس کے مطابق ہمیں حق ہے کہ ہم حکومت پاکستان کو اپنا موقف تبدیل کرنے کے لیے ہر پُرامن طریقہ استعمال کرسکتے ہیں، لیکن ہمیں ہتھیار اٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ 


مقبوضہ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی 

مقبوضہ کشمیر کے اندر کوئی ایسا مرکزی مقام یا علاقہ موجود نہیں جہاں آزادی کی جدوجہد کرنے والے اپنی ریاست حکومت بناسکیں، اس لیے اصولی اعتبار سے اُن کے لیے مسلح جدوجہد ممکن نہیں۔ البتہ اگر پاکستانی ریاست مناسب اور ممکن سمجھے تو وہ مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرنے کے لیے جنگ کے راستے کو اختیار کرسکتی ہے۔ تاہم جنگ سے پہلے اُسے بھارت کے ساتھ عدم جارحیت اور امن کے سمجھوتوں کو ختم کرنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا وہ اس جنگ کو جیتنے کی پوزیشن میں ہے یا نہیں۔ ان دونوں اصولوں پر اس کتاب کے صفحہ33تا38 میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ 


فلسطین کی جدوجہدِ آزادی 

مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں کی حکومت قائم ہے، چنانچہ اس اعتبار سے وہ چاہیں تو اسرائیل سے جنگ کرسکتے ہیں۔ تاہم انہیں اس اصول کا بھی خیال رکھنا ہے کہ کیا وہ لڑائی کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔اس اصول پر اس کتاب کے صفحہ36تا38 میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ 


غیر مسلم ممالک میں مسلمان اقلیتوں کی جدوجہد 

اگرچہ کچھ غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کو اُن کے دنیوی حقوق پوری طرح نہیں دیے جارہے، تاہم پوری دنیا میں صرف ایک جگہ ایسی ہے جہاں مسلمانوں کو اپنے دینی فرائض کی بجاآوری سے بھی روکا جاتا ہے۔ وہ جگہ میانمار (سابقہ برما) میں اراکان نامی مسلمان اکثریتی علاقہ ہے۔ اس ایک علاقے کے سوا باقی غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کے لیے صرف پُرامن جدوجہد کریں۔ اُن کو مسلح جدوجہد کی اجازت نہیں۔ اراکان کے معاملے میں سب مسلمان ملکوں پر یہ لازم ہے کہ وہ پہلے پُرامن طریقوں سے ان مسلمانوں کے دینی حقوق کو حاصل کریں، اور اگر پُرامن طریقوں سے یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو پھر اُن پر لازم ہے کہ وہ اراکان کے مسلمانوں کے دینی حقوق کو طاقت کے ذریعے حاصل کریں، بشرط یہ کہ ایسا کرنا اُن کے لیے ممکن ہو۔

B