HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Dr. Farooq Khan

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

چند مزید اہم امور کی وضاحت

بارہواں باب 


جنگ پر ابھارنے والی آیات و احادیث کا صحیح موقع و محل 

بعض گروہوں نے جنگ کے ضمن میں قرآن وسنت کی تمام ہدایات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ یہ گروہ اُن آیات و احادیث کو باربار سناکر لوگوں کو اپنے ساتھ ملنے پر ابھارتے ہیں جن میں جہاد وقتال کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ اِن آیات و احادیث کے ضمن میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ یہ سب کی سب اُس وقت نازل ہوئیں، یا حضورؐ نے ارشاد فرمائیں جب ایک باقاعدہ حکومت کے تحت مسلمانوں کو جنگ کے لیے ابھارنا مقصود تھا۔ اِن آیات میں کوئی بھی آیت مکہ معظمہ میں نازل نہیں ہوئیں، اور حضورؐ سے روایت کردہ سب احادیث بھی صرف اور صرف مدنی دور کی ہیں۔ حضورؐ کے زمانے میں مسلمانوں کی کوئی باقاعدہ فوج موجود نہیں تھی۔( باقاعدہ فوج کا نظام بعد میں حضرت عمرؓ کے دو رمیں بنایا گیا)۔ چنانچہ یہ ضروری تھا کہ جنگ کے موقعے پر ہر بالغ مسلمان کو جنگ کے لیے ابھارا جاتا۔ آج بھی اگر کسی مسلمان ملک کو ایسے حالات پیش آجائے جب ہر بالغ مسلمان کی جنگ میں ضرورت پڑجائے، تو سب لوگوں کو اس مقصد کے لیے ابھارا جائے گا۔ ویسے بھی جنگ کے موقعے پر ہر مسلمان کو ہر وقت جان ومال کی قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ 

گویا ان آیات کا تعلق اُن حالات سے ہے جب ایک باقاعدہ مسلمان حکومت سب لوگوں کو جنگ کے لیے نکلنے کا، تیار رہنے کا یا مالی قربانی دینے کا حکم دے۔ ان آیات کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر فرد اپنی جگہ پر اور اپنی سوچ کے مطابق جنگ کو ضروری سمجھ کر ان آیات کو اپنے اوپر منطبق کرکے جنگ شروع کردے۔ 


مقابل قوت کو دعوتِ اسلام کا صحیح پسِ منظر 

بعض گروہوں نے ایک روایت سے بالکل غلط معنی نکالتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ مسلمانوں کو ہر غیر مسلم حکومت کو جنگ کے ذریعے ختم کرنے کا حق ہے۔ صرف یہ شرط ہے کہ لڑائی سے پہلے غیر مسلموں کے سامنے تین باتیں پیش کی جائیں۔یہ کہ تم لوگ اسلام قبول کرلو۔ اگر اسلام قبول نہیں تو جزیہ ادا کرو۔ اور اگر یہ بھی منظور نہیں تو پھر لڑنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ 

ان گروہوں کا یہ موقف بالکل غلط ہے۔ یہ بات حضورؐ نے اُن غیر مسلم حکومتوں اور گروہوں کے بارے میں ارشاد فرمائی جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کا باقاعدہ اعلان کردیا تھااور وہ اس بات کے درپے تھے کہ جب بھی اُن کو موقع ملے وہ مسلمانوں کو نیست ونابود کردیں۔ ایسے دشمنوں کے بارے میں حضورؐ نے ہدایت فرمائی کہ لڑائی سے پہلے اُن کو بھی ایک آخری موقع دیا جائے، ممکن ہے کہ لڑائی کے بغیر ہی مسئلہ حل ہوجائے۔ گویا اس ہدایت کا کوئی تعلق پُرامن غیر مسلم ملکوں سے نہیں ہے۔ اسی طرح اس کا کوئی تعلق دوملکوں کے درمیان ایسے باہمی جھگڑے سے بھی نہیں ہے جس کا تعلق دین سے نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان روایات میں ’’دشمن‘‘ کا لفظ واضح طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً مشکواۃ کی ایک روایت کے مطابق حضورؐ نے اپنی فوج کے سپہ سالار کو ہدایت فرمائی کہ

’’جب تم ان دشمن مشرکین سے میدان جنگ میں ملو تو ان کو اسلام کی دعوت دو۔ اگر انہوں نے قبول کرلیا تو پھر اُن سے لڑائی سے باز رہو۔ اگر انہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا تو اُن سے جزیہ ادا کرنے کا مطالبہ کرو۔ اگر انہوں نے جزیہ قبول کرلیا تو ان سے لڑنے سے باز رہو۔ اور اگر انہوں نے جزیہ ادا کرنے سے بھی انکار کیا تو پھر اللہ سے مدد مانگو اور ان سے لڑو‘‘۔ 

گویا یہ ہدایت معاملے کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے آخری چارہ کار ہے کہ اگر دشمن لڑائی کے بجائے ان شرائط میں سے کسی شرط کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو تو لڑائی کو ٹالا جائے۔ 


جنگ کے لیے ریاست و حکومت کی شرط پر چند اعتراضات کا جواب 

ابن النحاس کے نقطہ نظر کا جائزہ 

یہ بات کہ قتال فی سبیل اللہ کے لیے حکومت وریاست کی موجودگی شرطِ اولین ہے، علماء و فقہا کے درمیان متفق علیہ ہے۔ پچھلے چودہ سو برس میں صرف دواہلِ علم ابن النحاس اور ابو حفص بلقینی نے اس سے جزوی طور پر اختلا ف کیا ہے۔ سب مسالک سے تعلق رکھنے والے فقہا و علماء ، سب محدثین اور ہر زمانے سے تعلق رکھنے والے اہلِ علم یہی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ اُمتِ مسلمہ کی تاریخ میں خوارج کے بعد یہ دوسری مرتبہ ہے کہ ریاست وحکومت کی موجودگی، اجازت، علی الاعلان ذمہ داری، اور براہ راسست نگرانی کے بغیرجنگ کو جائز قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ کوشش 1980ء کے بعد سے لے کر اب تک جاری ہے۔ اس وقت جو گروہ اس طرح کی جنگ میں نظریاتی لحاظ سے پیش پیش ہیں، وہ ساری امت کے سابقہ متفقہ موقف اور ان علماء کی جہادوقتال کے متعلق سینکڑوں کتابوں کو چھوڑ کر صرف دو افراد کی رائے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ دونوں حضرات بھی حکمران کے بغیر جنگ کو مکروہ قرار دیتے ہیں۔ گویا ان کے نزدیک بھی حکمران کے بغیر جنگ کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ ان کے اور باقی ساری امت کے درمیان فرق یہ ہے کہ باقی ساری امت حکمران کے بغیر جنگ کو حرام قرار دیتی ہے، جب کہ یہ دونوں حضرات اس کو حرام کے بجائے مکروہ کے درجے میں رکھتے ہیں۔ جب ایک چیز مکروہ کے درجے میں ہو گئی تو ظاہر ہے کہ وہ جائز نہیں ہے اور اس پر کسی اجر کی امید بھی نہیں رکھنی چاہیے۔ 

اب ہم ابن النحاس کے موقف کو ان کے اپنے الفاظ میں بیان کریں گے، اور جائزہ لیں گے کہ ان کا موقف کہاں تک قرآن وسنت کے مطابق ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’مشارع الاشواق‘‘ میں کہتے ہیں’’خلیفہ یا اس کے نائب کے بغیر جنگ مکروہ ہے۔ البتہ حرام نہیں کیونکہ بغیر اجازت کے جنگ کرنا دھوکا دہی سے بڑھ کر تو نہیں ہے۔ حالانکہ جنگ میں کفار کو دھوکا دینا جائز ہے‘‘۔ 

یہ دلیل نہایت کمزور بلکہ غلط ہے۔ دھوکہ دہی سے تو صرف کسی فرد یا گروہ کو کوئی چھوٹایا بڑا نقصان پہنچتا ہے۔ اس کے برعکس لڑائی میں تو دونوں طرف سے سینکڑوں ہزاروں انسانوں کا خون بہتا ہے، اور جان ومال و آبرو کے عظیم نقصانات کا اندیشہ ہوتا ہے۔ پروردگار کے نزدیک کسی ایک انسان کا ناحق قتل تمام انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ پھر بھلا دھوکہ دہی اور جنگ کیسے برابر ہوسکتے ہیں۔ غلط موقعے پر جنگ تو دھوکہ دہی سے ہزاروں گنا بڑا گناہ ہے۔ پھر مزید بات یہ بھی ہے کہ حکمران کی اجازت کے بغیر جنگ مسلمانوں سے دھوکہ کرنا ہے، اُن کے درمیان نفاق ڈالنا ہے، اور اُن کی جانوں کو خطرے میں مبتلا کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک عظیم گناہ ہے۔ 

کچھ لوگ ایک اور فقیہہ ابن قدامہ کے موقف سے بھی دلیل پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ

ابن قدامہ حکمران کی موجودگی کے شرط کے سختی سے قائل ہیں۔ اُن کا موقف یہ ہے کہ اگر کسی جگہ دشمن حملہ کردے اور یہ ممکن نہ ہو کہ حاکم کو فوراً پیغام پہنچایا جائے اور اُس کی ہدایات کا انتظار کیا جائے، تو ایسی صورت میں فوراً مزاحمت شروع کردی جائے۔ ابن قدامہ کا یہ موقف بالکل صحیح ہے کیونکہ یہ ہنگامی صورت حال سے متعلق ہے اور یہ عقلِ عام کا استثنا (common sense exception) ہے۔ دراصل پرانے زمانے میں بعض سرحدات دارالحکومت سے سینکڑوں میل دور ہوتی تھیں اور دشمن کی طرف سے کسی اچانک حملے کی صورت میں دارالحکومت سے فوری ہدایات لینا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ ابن قدامہ کی یہ بات ایسی ہی صورت حال سے متعلق ہے۔ آج بھی بعض اوقات یہ ممکن نہیں ہوتا۔ مثلاً 1965ء کی جنگ میں بھارت نے جب لاہور پر اچانک حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی شہید نے فوری مزاحمت شروع کردی۔ 


عبداللہؓ بن زبیر کی حکمرانی سے استدلال 

تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے یہ لوگ یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہؓ بن زبیر نے بھی حکومت کے بغیر اپنے وقت کے بادشاہ کے خلاف جہاد کیا۔ 

یہ دلیل بھی بالکل غلط ہے۔ ابنِ زبیر نے پہلے اپنی حکومت قائم کی اور پھر اپنی حکومت کے کے دفاع کی کوشش میں شکست کھائی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ 64ہجری(683ء) میں بنو امیہ کے حکمران یزید کی موت کے بعد ملک میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور کوئی مرکزی اقتدار نہ رہا۔ اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ابن زبیرؓ نے حجاز میں اپنی حکمرانی کا اعلان کردیا۔ ان کی حکومت نو برس تک رہی۔ اس دوران میں بنو امیہ کے حکمران عبدالملک نے شام وعراق میں اپنا اقتدار مستحکم کیا اور پھر ابن زبیرؓ کی حکومت کے خلاف فوج کشی کی ، جس میں ابن زبیرؓ کی فوج کو شکست ہوئی۔ 

حجاز میں ایک علیحدہ حکومت قائم کرنے کا یہ فیصلہ حکمت عملی کے اعتبار سے کس قدر درست تھا؟ یہ بحث اس وقت ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ تاہم دینی اعتبار سے ابن زبیرؓ کے اقدام پر کوئی گرفت نہیں کی جاسکتی، اس لیے کہ انہوں نے مسلمانوں کی تائید سے پُرامن طور پر ایک آزاد حکومت قائم کی۔ اس کے بعد بھی انہوں نے کسی پر حملہ نہیں کیا، بلکہ صرف اپنی حکومت کا دفاع کیا۔ اس واقعے کی پوری تفصیل اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 12، صفحہ781تا784 میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ 


ابراہیم اور اُن کے بھائی نفسِ زکیہ کا طرزِ عمل اور امام ابو حنیفہ رحؒ ؒ کا نقطہ نظر 

ان لوگو ں کی طرف سے یہ بات بھی دلیل کی طور پر پیش کی جاتی ہے کہ عباسی حکمران منصور کے خلاف ابراہیم اور اُن کے بھائی نفسِ زکیہ نے مسلح تحریک شروع کی، اور امام ابو حنیفہرح نے بھی اس کی تائید کی۔ 

یہ دلیل بھی بالکل غلط اور گمراہ کن ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ محمد بن عبداللہؓ جن کا لقب نفسِ زکیہ تھا، حضرت حسنؓ کے پوتے تھے۔ علوی خاندان شروع سے ہی حضورؐ سے رشتہ داری کی بناء پر اپنے آپ کو خلافت کا حق دار سمجھتا تھا۔ چنانچہ یہ خاندان تمام مسلمانوں کو اپنی حکمرانی کی دعوت پُرامن طریقے سے دیتا رہا۔ اس خاندان کی یہ دعوت بنو اُمیہ اور بنو عباس دونوں ادوار میں جاری رہی۔ چنانچہ نفس زکیہ بھی پُرامن طریقے سے لوگوں کو اپنی حکومت کی دعوت دیتے رہے۔ جب اُن کو ایک مرکزی علاقے میں اپنے کچھ پیروکار مل گئے، تو انہوں نے نہایت پُرامن طریقے سے 145ھ( 762ء) میں مدینہ میں اپنی حکومت کا اعلان کردیا۔ اس وقت ابو جعفر عباسی خلیفہ تھا اور بغداد اُس کا دارالحکومت تھا۔ اُس نے نفسِ زکیہ کو مکمل معافی کی مسلسل پیش کش کی۔ حتیٰ کہ جب اس نے مدینہ کی طرف فوج بھیجی تو اُس فوج نے بھی انتہائی کوشش کی کہ خون ریزی کی نوبت نہ آنے پائے۔ اس دوران میں نفس زکیہ کے ساتھی دن بدن کم ہوتے گئے، اس لیے کہ عام لوگ یہ سمجھ گئے کہ مسلمانوں کی یہ آپس کی خانہ جنگی کوئی فائدہ مند چیز نہیں ہے۔ چنانچہ ایک مختصر سی لڑائی کے بعد نفسِ زکیہ قتل ہوگئے۔ ان کی کل حکومت کا عرصہ ایک ڈیڑھ مہینہ تھا۔ نفس زکیہ کی جدوجہد کی فکری بنیاد اور آخری لڑائی حکمت وشریعت کے اعتبار سے صحیح نہیں تھی، کیونکہ اسلام میں رشتہ داری کی بنیاد پر خلافت کے حق کی کوئی بنیاد نہیں۔ آخری لڑائی میں ان کے لیے صحیح طریقہ کار یہی تھا کہ وہ ابو جعفر کی پیش کش سے فائدہ اٹھاکر وسیع تر مسلمان حکومت میں اپنے علاقے کو ضم کرتے اور حکومتی خرابیوں کو دور کرنے کی جدوجہد پرامن طریقے سے کرتے۔ 

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ امام ابو حنیفہ رحؒ نے نفس زکیہ کی حمایت کی تھی، اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ وہ نفس زکیہ کو عباسی خلیفہ ابوجعفر کی نسبت بہتر سمجھتے تھے۔ تاہم چونکہ وہ اس جدوجہد کو لا حاصل سمجھتے تھے، اس لیے انہوں نے اس تحریک میں کوئی عملی حصہ نہیں لیا۔ اگر وہ اس لڑائی کو کفرواسلام کی جنگ سمجھتے یا نفس زکیہ کی مدد کرنا ان کے خیال میں ضروریاتِ دین میں سے ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس میں عملی طور پر کوئی حصہ نہ لیتے؟ 

اس ضمن میں اس طرح کی روایات کہ امام ابو حنیفہ رحؒ نے کہا تھا کہ ’’اس جنگ میں حصہ لینا پچاس حجوں سے زیادہ اجر رکھتا ہے ‘‘ محض گھڑی ہوئی لگتی ہے۔ بلکہ یہ امام صاحب کے اخلاق وکردار پر ایک بہتا ن ہے، کیونکہ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ موت کے خوف سے انہوں نے اتنے بڑے فریضے اور اجروثواب سے منہ موڑا اور اس میں عملی حصہ نہیں لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ امام صاحب نے اپنی بہترین حکمت عملی کے تحت اپنے آپ کو وقتی سیاسی ہنگاموں سے ہمیشہ دور رکھا۔ ان کے وقت میں کئی حکومتیں تبدیل ہوئیں، حتیٰ کہ ایک زمانے میں خوارج کا قبضہ بھی ہوگیا مگر انہوں نے اپنے علمی کام سے کام رکھا۔ نہ کسی حکومت کی مخالفت کی، نہ کوئی عہدہ قبول کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج دین کا کوئی بھی طالب علم ان کے کام سے بے نیازی کا تصور نہیں کرسکتا۔ 

درج بالا بحث میں بعض گوشے ہمارے موضوع سے باہر نکل گئے۔ وہ اس وجہ سے کہ ضمنی غلط فہمیوں کی بھی اصلاح کی ہوجائے۔ ورنہ ہمارے نقطہ نظر سے صرف اتنی بات بھی کافی ہے کہ نفس زکیہ نے خالص پرامن دعوت کے ذریعہ اپنی حکومت قائم کی اور حکومت قائم کرنے کے بعد انہوں نے صرف اپنی حکومت کی مدافعت کے لیے جنگ لڑی، جس میں وہ ناکام رہے۔ 


سید احمد شہیدؒ کے طرزِ عمل سے غلط دلیل 

ان لوگوں کی طرف سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ نے بھی حکومت حاصل کیے بغیر جنگ شروع کی۔ یہ دلیل بھی بالکل غلط ہے۔ سید احمد شہیدؒ تو جنگ کے لیے حکمرانی کی شرط کی پابندی کے اس شدت سے حامی تھے کہ انہوں نے سینکڑوں میل کا سفر طے کرکے آزاد سرحدی قبائل کے علاقے کو اپنا ٹھکانہ بنایا۔ وہاں لوگوں کو اپنی بیعت کی دعوت دی۔ پھر اپنی حکومت بنائی، اور اس کے بعد غاصب سکھوں سے برسرِپیکار ہوگئے۔ یہ سب باتیں اتنی واضح ہیں کہ ان کو مسلم تاریخ کا ایک مبتدی بھی جانتا ہے۔ سید احمد شہیدؒ کی سوانح پر بہت سا قیمتی مواد موجود ہے۔ بطورِ نمونہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد2، صفحہ 137تا143 میں یہ معلومات ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ 

البتہ سید احمد شہیدؒ کی اس جدوجہد میں کچھ اور خامیاں موجود تھیں جن کی طرف اُس وقت کے علماء نے ان دونوں بزرگوں کو متنبہ کیا تھا اور توجہ دلائی تھی۔ اس جدوجہد میں حکمتِ عملی کے اعتبار سے بھی کچھ کمزوریاں موجود تھیں جن پر مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب ’’تجدید و احیائے دین‘‘ میں توجہ دلائی ہے۔ راقم الحروف نے بھی اپنی کتاب ’’امت مسلمہ، کامیابی کا راستہ‘‘ میں ان پر مختصر بحث کی ہے۔ تاہم چونکہ یہ بحث اس کتاب کے موضوع سے الگ ہے، اس لیے یہاں اُن کے تذکرے کی ضرورت نہیں۔ 


1857ء کی جنگ آزادی سے ایک غلط دلیل 

ان لوگوں کی طرف سے یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ 1857ء کی جنگ آزادی بغیر کسی حکمران کے لڑی گئی۔ اس ضمن میں اصل حقیقت یہ ہے کہ اُس وقت ہندوستان کے علماء نے آخری مغل حکمران بہادر شاہ ظفر سے بطورِ مرکزی حاکم رابطہ کیا، انہیں تسلیم کیا، اور اُن کی اجازت سے تھانہ بھون نامی جگہ میں ایک متفقہ ’وار کونسل‘ بنائی۔ اس وار کونسل کا سربراہ حاجی امداد اللہ کو بنایا گیا۔ اس کے بعد بہادرشاہ ظفر نے انگریزوں کے خلاف قتال کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے تحت سب لوگوں نے بہادر شاہ ظفر کے نائب کی حیثیت سے حاجی امداد اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی،اور اس کے بعد جنگ شروع کی گئی۔ یہ پوری تفصیل مولانا سید محمد میاں صاحب کی کتاب ’’علمائے ہند کا شاندار ماضی‘‘ جلد 4،صفحہ265تا282میں بڑی وضاحت سے مذکور ہے۔ 


حاجی صاحب ترنگزئی کی جنگ آزادی سے غلط استدلال 

یہ لوگ یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ حاجی صاحب ترنگزئی کی جنگ کو بھی انگریزوں نے حکمرانی کے مسئلے میں الجھا کر سبو تاژ کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ یوں کہ انگریزوں نے کہا کہ افغانستان کا بادشاہ افغانوں اور سرحد کے مسلمانوں کا حکمران ہے۔ چنانچہ جب تک وہ نہ کہے انگریزوں کے خلاف جنگ نہیں ہوسکتی۔ 

بات یہ ہے کہ جس طرح ہم مسلمان دوسرے مذاہب کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کے کچھ نکتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح بعض غیر مسلم بھی اسلام کا مطالعہ کرکے اپنے مطلب کی چیزیں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور ایک فیصد سچ کے ساتھ نناوے فیصد جھوٹ ملاکر اپنے مطلب کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔حاجی صاحب ترنگزئی کے معاملے میں انگریزوں کا موقف بالکل گمراہ کن تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ صوبہ سرحد کے آزاد قبائلی علاقے افغانستان کے والی کے کنڑول میں نہیں تھے۔ حاجی صاحب جب قبائلی علاقہ میں پہنچے تو مہمند کے علاقے میں انہوں نے اپنی حکومت قائم کرلی۔ ہر فیصلہ وہ کرتے تھے، اور مجرموں کو سزا دی جاتی تھی۔ چونکہ اردگرد ہر قبیلہ کے اپنے اپنے سردار موجود تھے جن کی اپنے اپنے علاقوں میں حکومت قائم تھی، اس لیے حاجی صاحب ان سے مل کر انگریزوں کے خلاف جنگ کرتے تھے۔ حاجی صاحب نے افغانستان کے والی امیر حبیب اللہ خان کو بھی انگریزوں پر حملہ کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی ،مگر امیر اس پر قائل نہ ہوئے اور یہ موقف اختیار کیا کہ ان کے پاس انگریزوں سے لڑنے کے لیے مطلوبہ تیاری نہیں۔ البتہ حاجی صاحب کو اُس نے ہر ممکن مالی واخلاقی مدد کی یقین دہانی کرائی۔ 

اس کے بعد حاجی صاحب نے ترکی کے حاکم سلطان عبدالحمید، جو اُس وقت کے خلیفۃ المسلمین تھے، کی خدمت میں وفد بھیجا۔ یعنی حاجی صاحب نے اپنا الحاق خلافتِ اسلامیہ کے ساتھ کردیا۔ خلیفۃ المسلمین نے اس کو قبول کیا اور حاجی صاحب کو تحریری طور پر انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت دی۔ اسی طرح کا تحریری فرمان غالب پاشا گورنر حجاز نے بھی جاری کیا۔ گویا اصل صورت حال یہ تھی کہ پہلے حاجی صاحب نے علاقہ مہمند میں اپنی حکومت قائم کی، پھر اس کا الحاق خلافت اسلامیہ کے ساتھ کیا اور اس خلافت کی تحریری ہدایت سے جنگ شروع کی۔ بہت بعد میں انگریزوں کو بھی حاجی صاحب کی یہ حیثیت تسلیم کرکے اُن سے 1935ء کا معاہدہ غلنئی کرنا پڑا۔

جیسا کہ قارئین نے ملاحظہ کیا ہوگا، ریاست وحکومت کی علی الاعلان اجازت، انتظام اور براہ راست نگرانی کے خلاف جتنے بھی دلائل پیش کیے جاتے ہیں، وہ سب انتہائی بودے اور کمزور ہیں۔ ان سب دلائل میں تاریخی حقائق کو توڑنے مروڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان سے جو معصوم اور علم سے نابلد لوگ متاثر ہوں گے، اُس کے نتیجے کے طور پر سارے عالمِ اسلام کو نقصان پہنچے گا۔

B