دسواں باب
دورِ حاضر میں اسامہ بن لادن مسلمانوں کے ایک گروہ کے فکری عملی قائد کے طور پرسامنے آئے ہیں۔اس لئے ضروری ہے کہ ان کی فکر کا تجزیہ کیا جائے۔
تےئس فروری انیس سو اٹھانوے(23.2.1998)کو القاعدہ کے سربراہ کی حیثیت سے اسامہ بن محمد بن لادن،امیر جماعت الجہاد مصر کی حیثیت سے ڈاکٹر ایمن الظواہری اور امیر جماعت الاسلامیہ مصر کی حیثیت سے جناب ابویاسر کی طرف سے ایک تفصیلی مشترکہ فتویٰ منظر عام پرآیا۔ یہ فتویٰ افغانستان میں خوست کے مقام سے جاری کیا گیا۔اس فتوے کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔
الف: فتوے کی ابتدا سورۃ توبہ9آیت5سے کی گئی ہے جس کے مطابق حضورؐ کو ’’بحیثیت رسول مشرکین کو آخری انتباہ‘‘کی مدت ختم ہونے کے بعد جزیرہ نمائے عرب کے مشرکین کو قتل کرنے کا حکم ہے۔
ب: اس کے بعد سیاسی تجزیہ کرتے ہوئے تین باتیں کہی گئی ہیں:ایک یہ کہ کہ امریکی فوج1991ء سے جزیرہ نمائے عرب میں موجود ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ 1991ء کی خلیجی جنگ میں امریکہ اور دوسری صلیبی طاقتوں نے عراقی قوم پر ایک بڑی تباہی مسلط کردی ہے اور تیسری بات یہ کہ اس سے اسرائیل کو تقویت حاصل ہوگی۔
ج: اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امریکہ نے پورے عالم اسلام کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔ایسے موقعہ پر جہاد فرضِ عین ہوجاتاہے۔
د: چنانچہ ہم تمام مسلمانوں کو یہ حکم دیتے ہیں کہ وہ ہر امریکی اور اس کے ہم نواؤں کو قتل کرے اور ان کا سامان لوٹے۔
ہ: یہ حکم اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مسجد اقصیٰ اور مسجد حرام دشمن کے قبضے سے آزاد نہیں ہوجاتے اور وہ اسلام کی ہر سرزمین سے نکل نہیں جاتے۔
اس فتوے کے ضمن میں درج ذیل نکات قابل غور ہیں۔
O کیا ازروئے اسلام ریاست وحکومت سے عاری ایک گروہ کو اعلانِ جنگ کا حق حاصل ہے۔اگر کچھ دوسرے علماء اس کے خلاف فتویٰ جاری کریں تو کیا ہوگاجیسا کہ عملاً ہوا۔کیا اس طرح کے فتوؤں سے امت مسلمہ کے اندر انتشار اور انارکی کی فضا پیدا نہیں ہوجائے گی۔کیا اس سے امریکہ کو مزید مداخلت کا بہانہ نہیں مل جائے گا۔پوری امت کو حکم دینے کا اختیار ان تین افراد کو کس نے دیا۔
O فتوے کے حصہ الف سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ بن لادن سورۃ توبہ کی متعلقہ آیات کو صرف حضورؐ کے زمانے کے مشرکینِ عرب کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں یا وہ اسے دنیا بھر کے مشرکین کے لئے قیامت تک کے لئے ایک عمومی حکم سمجھتے ہیں۔
اگر پہلی بات ہے تو وہ زمانہ اور وہ وقت تو گزر چکا۔اور اگر دوسری بات ہے تو پھر یہ بات صاف کہہ دینی چاہئیے کہ اب از روئے قرآن ہرمشرک کا قتل ہر وقت ہر مسلمان پر روا ہے۔
O۔ سورۃ توبہ کی متعلقہ آیات تو مشرکین سے متعلق ہیں، جب کہ اس فتوے میں ان کو بنیاد بنا کر امریکہ کے خلاف ایک فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔امریکہ تو عیسائی اہل کتاب کا اکثریتی ملک ہے۔اور قرآن مجید ہمیشہ مشرکین اور اہل کتاب کو علیحدہ علیحدہ زمروں میں بیان کرتا ہے۔لہٰذا ان آیات سے اس فتوے کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔اس کے بجائے قرآن مجید کی کسی ایسی آیت کو بنیاد بنانا چاہئیے تھا جو اہل کتاب سے متعلق ہوتا۔
O۔ اس فتوے کا سیاسی تجزیہ بالکل سطحی ہے۔ 1991ء کا پورا خلیجی بحران صدام کی وجہ سے شروع ہواتھا لیکن اس کا کوئی تذکرہ اس فتوے میں موجود نہیں۔اسی طرح یہ فتویٰ اس تجزئے سے بھی خالی ہے کہ وہ کون سے سیاسی عوامل تھے جن کی وجہ سے امریکہ کو اپنی افواج یہاں داخل کرنے کا بہانہ ملا اور اب کونسے ایسے سیاسی اقدامات اٹھانے چاہئیں جن کی وجہ سے امریکی فوج یہاں سے جانے پر مجبور ہوجائے۔
جہاں تک اسرائیل کی تقویت کا سوال ہے تو ایسا کوئی آج سے نہیں ہورہا ۔ یہ تو 1947ء سے امریکی ایجنڈے پر موجود ہے۔ اور اس وقت بھی یہی امریکی پالیسی تھی جب اس فتوے کے محرکین افغانستان میں امریکی تائید وحمایت سے امریکہ ہی کی جنگ لڑ رہے تھے۔پھر عراق کی اسرائیل سے سرحد بھی نہیں ملتی،اسرائیل کے معاملے میں تو امریکہ کو تب فائدہ ہوگا جب مصر،اردن اور شام ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں۔
O۔ 1991ء میں عراق کے خلاف فوج کشی سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ امریکہ نے پورے عالمِ اسلام کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے۔غلط یا صحیح لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اس جنگ کے لئے اقوام متحدہ نے باقاعدہ اجازت دی تھی،تمام مسلمان ممالک اس میں امریکہ کے ساتھ کھڑے تھے ،کویت کے خلاف عراقی جارحیت کی ساری دنیا نے مذمت کی تھی اور اس لڑائی میں چالیس سے زیادہ ملکوں کی افواج نے حصہ لیا تھا۔
O۔ اسلامی احکام کی رو سے کسی غیر محارب کو قتل کرنا اور اس کا مال لوٹنا منع ہے۔لیکن اس فتوے میں کہا گیا ہے کہ ہر امریکی،خواہ وہ فوجی ہو یا سویلین،کو قتل کرنا لازم ہے اور اس کا مال لوٹنا چاہئیے۔کیا یہ دینی احکام کی صریح خلاف ورزی نہیں ہے۔؟
O۔ اسلام کی ہرسرزمین سے ا س فتویٰ کا کیا مطلب ہے۔کیا اس کا مطلب ہر وہ سرزمین ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔اگر ایسا ہے تو یہ بات اہم ہے کہ روس کے اندر کئی مسلم اکثریتی علاقے موجود ہیں،چین کے اندر سنکیانگ میں مسلمان اکثریت میں ہیں،بھارت نے وادئ کشمیر پر قبضہ کیا ہوا ہے۔پھر تو فتوے کی دلیل کے مطابق ان سب ملکوں کے خلاف اعلانِ جنگ ضروری ہے۔ایسا کیوں نہیں کیا گیا۔؟
درج بالا نکات سے یہ بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ مذکورہ فتوے کی دینی،سیاسی،تجزیاتی اور اخلاقی حیثیت کس سطح کی ہے۔