HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Dr. Farooq Khan

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

جنگ، جدوجہد آزادی، اور متشدد انتہا پسند تنظیموں کی شورش (حصہ دوم)

جہاں تک اس دلیل کا تعلق ہے کہ اگر خودکش حملوں میں بے گناہ لوگ مرجائیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ لوگ جنت میں چلے جائیں گے، یہ دلیل انسانی جان کی حرمت سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ ہمارا دین تو اِس حد تک بے گناہوں کی جان کی حفاظت کرتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے قرآن مجید نے کہا کہ اگر بیعتِ رضوان کے بعد مسلمانوں اور مشرکین میں جنگ چھڑ جاتی تو مسلمان لازماً کامیاب ہوتے۔ یوں خانہ کعبہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوجاتا۔ مگر اللہ نے صرف اِس وجہ سے یہ جنگ روک دی کہ مکے کے اندر ایسے بھی لوگ موجود تھے جو دل کے اندر سے مسلمان تھے، مگر انہوں نے ابھی اپنے اسلام کا اعلان نہیں کیا تھا۔ یوں اِس لڑائی کے نتیجے میں اُن کو نادانستگی میں نقصان پہنچتا، اور وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ گویا اللہ کو اُن لوگوں کی جان بھی عزیز تھی، جو کفار کے خوف سے ابھی اپنے اسلام کا اعلان بھی نہ کرسکتے تھے۔ ارشاد ہے: 


وَلَوْ قَاتَلَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا() سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً() وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَ یْْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَ یْْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْْہِمْ وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا() ہُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْہَدْیَ مَعْکُوْفًا اَنْ یَّبْلُغَ مَحِلَّہٗ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَآءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْہُمْ اَنْ تَطَؤُوْہُمْ فَتُصِیْبَکُمْ مِّنْہُم مَّعَرَّۃٌ بِغَیْْرِ عِلْمٍ لِیُدْخِلَ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآءُ لَوْ تَزَیَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا() اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَاَلْزَمَہُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی وَکَانُوْٓا اَحَقَّ بِہَا وَاَہْلَہَا وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْْءٍ عَلِیْمًا()(سورۃ فتح-48آیات26.....22)
’’اے حضورؐ کے ساتھیو، اگر یہ منکرینِ حق (اِس موقعے پر) تم سے جنگ کرتے تو یقیناًپیٹھ پھیر جاتے اور پھر نہ کوئی کارساز پاتے نہ مددگار۔ یہ اللہ کا ٹھہرایا ہوا طریقہ ہے، جو پہلے سے چلا آرہا ہے۔ تم اللہ کے اِس طریقے میں کوئی تبدیلی نہ پاؤگے۔
وہی اللہ ہے جس نے مکے کی وادی میں اُن کے ہاتھ تم سے روک دیے اور تمھارے ہاتھ اُن سے روک دیے، حالانکہ اللہ تمھیں اُن پر غلبہ عطا کرچکا تھا۔( اُس وقت) تم جو کچھ کررہے تھے، اُسے اللہ دیکھ رہا تھا۔ 
یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے حق کا انکار کیا، تم کو مسجدِ حرام سے روکااور قربانی کے جانوروں کو بھی قربانی کی جگہ پر نہ پہنچنے دیا۔ اگر (مکہ میں) ایسے مومن مرد اور مومن عورتیں موجودنہ ہوتیں، جنھیں تم نہیں جانتے، اور یہ خطرہ نہ ہوتاکہ تم لا علمی میں انھیں روند ڈالوگے اوراس سے تم پر الزام آئے گا(تو ہم تمھیں جنگ کی اجازت دے دیتے، لیکن اللہ نے یہ اجازت اس وجہ سے نہ دی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے، داخل کرے۔ اگر وہ مومن اِن منکرینِ حق سے الگ ہوگئے ہوتے تو ہم اِن منکرینِ حق کو ضرور سخت سزا دیتے۔
وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے، جب اِن منکرینِ حق نے اپنے دلوں میں جاہلانہ حمیت4؂بٹھائی تو اللہ نے اپنے رسول اور مومنین پر اطمینان نازل فرمایا اور اُن کو تقویٰ کی بات کا پابند رکھا5؂۔وہی اس کے حق دار اور اہل تھے۔ اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔‘‘


1۔ اس معاملے میں اللہ کا مقررکردہ اصول یہ ہے کہ جب رسول کے ساتھی اپنے ایمان و یقین کی بہترین حالت میں ہوں تو لڑائی کے وقت وہ اپنے سے دس گنا زیادہ سازوسامان وافرادی طاقت والے دشمن پر بھی غالب آئیں گے۔ چونکہ بیعتِ رضوان کرنے والے سارے صحابہؓ کی یہی کیفیت تھی، اس لیے اگر جنگ کی نوبت آتی تو دشمن کو لازماً شکست ہوتی۔ 

2۔ یعنی اللہ کی حکمت کا تقاضا یہ ہوا کہ ابھی یہ جنگ نہ ہو۔ 

3۔ یہاں وہ حکمت بیان ہوئی ہے کہ اس موقعے پر اللہ نے جنگ کیوں نہ ہونے دی۔ اصل وجہ یہ تھی کہ مکے میں ایسے بہت سے مرداور عورتیں موجود تھیں، جنہوں نے خفیہ طور پر اسلام قبول کرلیا تھا اور جن سے صحابۂ کرامؓ واقف نہیں تھے، چنانچہ اگر حملہ ہوتا تو یہ مومن بھی اس کی زدمیں آجاتے۔ اللہ کو یہ منظور تھا کہ مکے کے وہ مسلمان، جنھوں نے اپنا دین ابھی چھپایا ہوا تھا، سلامت رہیں۔ 

دوسری مصلحت یہ تھی کہ اہل مکہ میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو اگرچہ ابھی ایمان نہیں لائے تھے، لیکن وہ ایمان لانے کے قریب تھے۔ اللہ نے چاہا کہ ایسے لوگوں کو بھی اپنے دامن رحمت میں جگہ دے دے۔ 

4۔ جاہلانہ حمیت کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص محض اپنی ناک اونچی رکھنے کی خاطر ایک ناروا اور حق وعدل کے خلاف کام کرے۔ عرب کے قدیم ترین مسلمہ اصول کے مطابق کسی شخص کو بھی حج وعمرے سے نہیں روکا جاسکتا تھا، لیکن قریش کے سرداروں نے صرف اس خیال کی بنیاد پر مسلمانوں کو عمرہ کرنے نہیں دیا کہ اس سے عرب میں ہماری ناک کٹ جائے گی۔ 

5۔ یہاں سکینت و تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ اہل ایمان کے دل میں بے شمار وسوسے آتے رہے اور کئی باتوں کی حکمت اس وقت ان پر واضح نہیں تھی، اس کے باوجود انھوں نے پوری طرح حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیے رکھا اور جذباتی رویے سے اپنے آپ کو روکے رکھا۔ 

غور کیجئے مسجد حرام اور خانہ کعبۂ پر مشرکین کے قبضے کو چھڑانے کا اہم ترین کام ہے اور مسلمانوں کو مکہ فتح کرنے کا پورا موقعہ مل رہا ہے۔ تب بھی اللہ نے اس لڑائی کی اجازت نہ دی کیونکہ مکہ کے اندر خفیہ طورپر اسلام قبول کرنے والے مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ جب اللہ کو مسلمانوں کی جان کی حفاظت اس درجے میں مطلوب ہے، تو اس بات کا کیا جواز ہوسکتا ہے کہ خودکش حملوں میں سینکڑوں بے گناہ مسلمان مارکر اپنے سر اُن کے خون کا الزام لے لیاجائے۔ ؟

جہاں تک مخالف مسلک کے لوگوں کو اِس بہانے سے قتل کرنے کا تعلق ہے کہ یہ کافر ہیں۔ تو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پچھلے سارے عرصے میں، سوائے چند گروہوں مثلاً قادیانیوں کے، امتِ مسلمہ نے متفقہ طور پر کسی کو کافر قرار نہیں دیا،ور نہ اُن کے لیے حج کی ادائیگی پر پابندی لگادی جاتی۔ اور اگر بالفرض کسی کی نظر میں وہ کافر بھی ہیں تو کس نے آپ کو یہ حق دیا ہے کہ کسی کافر کو قتل کریں۔ پروردگار نے تو ہر انسان کے قتل پر پابندی لگائی ہے، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ قتلِ انسانی تو پروردگار کی اِس زمین پر بدترین جرم ہے، خواہ براہِ راست ہو یا خودکش حملے کے ذریعے ہو۔ 

عام طور پر یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ فلاں ملک اور اُس کے اتحادی ظالم ہیں، اس لیے اُن کے خلاف خودکش حملے جائز ہیں، اور مسلمان حکومتوں میں سے جو حکومتیں کسی طرح بھی اُن کی مدد کرنی ہیں، اُن کے خلاف بھی خودکش حملے جائز ہیں۔ یہ دلیل صحیح نہیں۔ خودکشی ہر حال میں جُرم ہے اور یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ظلم کے خلاف جنگ بھی صرف اُس وقت جائز ہے، جب ایک منظم حکومت اس کا اعلان کرے، جب اُس ظالم کے ساتھ معاہدہ امن نہ ہو، اور جب وہ ظالم دگنے سے زیادہ طاقت ورنہ ہو۔ ان شرائط پر باب دوم میں روشنی ڈالی جاچکی ہے۔ اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو ظلم کے خلاف آواز ضرور بلند کرنی چاہیے، اور اس کے خاتمے کے لیے ہر پُرامن طریقے کی اجازت ہے، مگر جنگ کی اجازت نہیں۔ بے شمار پیغمبروں پر بہت زیادہ مظالم ڈھائے گئے مگر اِن شرائط کے پورا نہ ہونے کی صورت میں ا نہوں نے کبھی جنگ شروع نہیں کی۔ حضرت نوحؑ ، حضرت ھودؑ ، حضرت صالحؑ ،حضرت لوطؑ اور دوسرے پیغمبروں کی داستانیں ہمارے سامنے ہیں۔ اور سب سے بڑی مثال بنی اسرائیل کی ہے۔ فرعونیوں نے بنی اسرائیل پر کتنے مظالم ڈھائے۔ اُن کے سب لڑکوں کو مار دیتے تھے۔ اس کے باوجود حضرت موسٰیؑ کو فرعونیوں کے خلاف آخری وقت تک لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہی حال بنی اسرائیل کے باقی پیغمبروں کا تھا۔ درج بالا شرائط کی غیر موجودگی میں اللہ کے کسی نبی نے اُن کو جنگ کے لیے منظم نہیں کیا۔ حضرت مسیحؑ کے وقت میں بنی اسرائیل غلام تھے۔ مگر حضرت مسیحؑ نے کبھی اُن کو رومیوں کے خلاف جنگ کے لیے نہیں ابھارا۔ اور نہ ہی اپنے ساتھیوں کو خودکش حملوں کے لیے تیار کیا۔ 


خودکش حملوں کی حالیہ تاریخ 

خودکش حملوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ خوارج نے درحقیقت خودکش حملوں ہی کے ذریعے حضرت علیؓ، حضرت امیر معاویہؓ ، اور حضرت عمر وبن العاصؓ کو شہید کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ حسن بن صباح، جس نے خراسان کے پہاڑوں میں اپنی حکومت بناکر قلعہ الموت کو اُس کا مرکز بنادیا تھا، کا ایک بڑا ہتھیار خودکش حملے ہی تھا۔ اس طرح اُس نے اپنے وقت کے بڑے بڑے بادشاہوں کو لرزہ براندام کردیا تھا۔ حتیٰ کہ ہلاکو خان نے آکر اُس کے قلعے کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ 

حالیہ زمانے میں، دوسرے جنگِ عظیم میں، جاپانیوں نے بھی خودکش حملوں سے کام لیا تھا۔ ایک جاپانی پائلٹ بارود سے بھرے ہوئے ہوائی جہاز کو اڑاتے ہوئے برطانیہ کے کسی بحری جہاز کی چمنی کے اندر گھس جاتا، اور یوں وہ اپنے آپ کو ختم کرتے ہوئے دشمن کا سمندری جہاز اور دشمن کے سینکڑوں سپاہیوں کو غرق کردیتا۔ اگرچہ اس سے برطانیہ کا بڑا نقصان ہوا، لیکن اصل نقصان جاپان کا ہوا۔ کیونکہ جنگ کے اس طریقے سے جاپان کے پاس پائلٹ ختم ہوگئے، اور یوں اُس کے پاس برطانوی فوج کے ہوائی حملوں کو روکنے کا کوئی ذریعہ نہ رہا۔ 

سن اسی کی دہائی میں سری لنکا میں تامل گوریلوں نے بھی خودکش حملوں سے کام لیا۔ تامل گوریلوں کی طرف سے سری لنکا کی حکومت کے خلاف چار سو سے زیادہ خودکش حملے ہوئے ، جن میں سینکڑوں فوجی اور سویلین مارے گئے۔ لیکن آخری فتح سری لنکا کی ہوئی، اور تامل گوریلوں کو مکمل شکست ہوئی۔ گویا خودکش حملوں نے تامل گوریلوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔

ایک زمانے میں عراق کے اندر بہت سے خودکش حملے کیے گئے۔ مگر وہاں بھی اب یہ سلسلہ بہت کم ہوچکا ہے۔عراق کی جمہوری حکومت دن بدن مضبوط ہورہی ہے۔اُس نے اپنی مضبوطی کے ذریعے امریکیوں پر ثابت کردیا کہ اب عراق میں امن کی بحالی کے لیے امریکی فوج کی کوئی ضرورت نہیں۔ چنانچہ امریکیوں نے یہ وعدہ کرلیا ہے کہ وہ 2010ء کے آخر تک عراق سے مکمل طور پر نکل جائیں گے۔عراق میں القاعدہ کی حکمتِ عملی سو فیصد ناکام ہوچکی ہے۔ اُس نے وہاں سینکڑوں خودکش حملے کروائے، جس میں ہزاروں بے گناہ لوگ قتل ہوگئے۔ لیکن ان خودکش حملوں کا کوئی فائدہ القاعدہ کو نہیں پہنچا، اور وہ یہ جنگ ہار گئی ہے۔ 

پوری دنیا کی تاریخ میں خودکش حملوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ خودکش حملوں سے دشمن کے بجائے خود اپنے آپ کو زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔ وہ یوں کہ خودکش حملوں کے لیے صرف وہی شخص اپنے آپ کو پیش کرتا ہے جو انتہائی پرعزم، باصلاحیت اور قربانی کے جذبے سے سرشار ہو۔ جب کہ ان حملوں میں مرنے والے مخالف قوم کے افراد عموماً عام افراد ہوتے ہیں جو اتفاق سے اجل کا لقمہ بن جاتے ہیں۔ جب قوم کے باصلاحیت اور پرعزم نوجوان ان حملوں میں کام آجائیں تو پیچھے اوسط درجے کے لوگ ہی بچتے ہیں۔ جاپان نے بھی دوسری جنگ عظیم میں اپنے پائلٹوں کو دشمن کے بحری جہازوں سے ٹکراکر ایسا ہی غلط فیصلہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں اُس کے پاس پائلٹوں کی شدید قلت ہوگئی تھیں۔ چنانچہ یہ کوئی صحیح حکمت عملی نہیں۔ 

خودکش حملوں سے نمٹنے کے لیے مخالف طاقت بھی آہستہ آہستہ حکمت عملی سیکھ لیتی ہیں۔ مثلاً اسرائیل نے یہ سٹریٹیجی اختیار کی کہ خودکش حملہ آوروں کے سارے اہلِ خانہ کو جیل میں ڈال دیا، پھر ان کو جلاوطن کرکے بے یارومددگار چھوڑ دیا اور ان کے گھروں پر بلڈوزر چلادیے۔ اگرچہ یہ بہت ظالمانہ کاروائی تھی۔ تاہم اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خودکش حملوں کی تعداد کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ کیونکہ خودکش حملہ آور سوچتے تھے کہ ہمارے بعد ہمارے اہلِ خانہ اور پیاروں کو ناقابلِ بیان اذیت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 

خودکش حملے مخالف طاقت کے اندر ایک ایسی نفسیات پیدا کرتے ہیں، جن میں ضد، انتقام اور نفرت شامل ہوتی ہے۔ بسا اوقات خودکش حملے دشمن کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ مثلاً جب بھارت کے اندر خودکش حملے ہوئے تو سارا بھارت ان حملوں کے خلاف متحد ہوگیااور سب لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ان خودکش حملہ آوروں کے مطالبات کے سامنے سر نہ جھکایا جائے۔ یوں ان خودکش حملوں سے بھارت کو بحیثیت ریاست بڑی تقویت حاصل ہوئی۔ 

خودکش حملوں سے مظلوم قوم کی جدوجہد کو سخت نقصان پہنچتا ہے اور دنیا کے نزدیک ظالم ومظلوم ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ بلکہ بعض اوقات تو ظالم قوم پروپیگنڈے کے زور پر مظلوم قوم کو جارحیت پسند قرار دینے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ آج تک جتنے بھی خودکش حملے ہوئے ہیں، اُن میں فوجی اور غیر فوجی تنصیبات کا خیال عموماً نہیں رکھا گیا۔ چنانچہ جب ریستورانوں، مارکیٹوں اور بسوں میں خودکش حملوں سے سویلین مرجاتے ہیں، تو انسانیت کا مجموعی ضمیر ایسی کاروائیوں کو پسند نہیں کرتا اور ان کی مذمت کرتا ہے۔ جب فلسطینی خودکش حملہ آوروں نے پبلک مقامات پر دھماکے کیے، تو اس کے نتیجے میں ظالم اسرائیل کو تو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا، لیکن دنیا کی رائے عامہ کی نظر میں فلسطینیوں کی جائز آزادی کی جدوجہد پر اخلاقی اعتبار سے داغ لگ گیا۔ 

جب ایک دفعہ خودکش حملوں کو جائز قرار دیا جائے، خواہ وہ کتنے ہی نیک مقصد کے لیے کیوں نہ ہو، تو پھر یہ سلسلہ کہیں پر بھی جاکر نہیں رکتا۔ پھر اس کے نتیجے میں ایک گناہ گار کے ساتھ سو بے گناہ مارے جاتے ہیں۔پھر ہر گروہ دوسرے گروہ کو ظالم اور خارج از دائرہ اسلام قرار دیتے ہوئے اُس کے خلاف خودکش حملوں کو جائز سمجھ لیتا ہے۔اسی وجہ سے عراق میں اہلِ سنت اور اہلِ تشیع نے ایک دوسرے کے خلاف خودکش حملے کیے، جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہوا۔ مختلف مذہبی گروہوں نے ایک دوسرے پر خودکش حملے کیے، جس کے نتیجے میں دونوں طرف کے سینکڑوں لوگ جاں بحق ہوئے۔ اگرچہ ہر حملے کی ابتدا میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ان حملوں میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے، لیکن تحقیقات کے نتیجے میں ہمیشہ یہ بات سامنے آئی کہ درحقیقت ہرخودکش حملہ ایک مذہبی یا سیاسی گروہ نے اپنے مخالف مذہبی یا سیاسی گروہ کے خلاف کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خودکش حملے ایک ایسا پنڈورا باکس ہیں جس کو کھولنے کے نتیجے میں پھر کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ 

خودکش حملوں کے جواز میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’یہ دراصل ظلم کا ردعمل ہیں، چونکہ مظلوم قوم کو دیوار سے لگادیا گیا ہے، اس لیے ان لوگوں کے پاس خودکش حملوں کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ چنانچہ یہ خودکش حملے جائز ہیں‘‘۔ یہ دلیل صحیح نہیں ہے۔ ظلم خواہ کتنا بھی بڑھ جائے، ہمیں اس کے مقابلے کے لیے اللہ نے خودکش حملوں کی اجازت نہیں دی۔ اللہ کا دین تو اس دنیا میں آیا ہی اس لیے ہے کہ ہمارے اقدامات اور ردعمل کو قابو میں رکھے، اور ہمیں ہر چیز کے حدود اور آداب سکھائے۔فوری ردعمل ایک طبعی قانون (Physical Law) ہے۔ اس کے مقابلے میں انسان کیلئے روحانی قانون (Spiritual Law) ردعمل کا نہیں بلکہ صبر کا قانون ہے۔ یہ بات بھی غلط ہے کہ مظلوم اقوام مثلاً فلسطینیوں، عراقیوں، افغانیوں یا کشمیریوں کے پاس کوئی اور راستہ بچا ہی نہیں۔ درحقیقت مزاحمت کا سب سے بڑا ہتھیار عدم تشدد پر مبنی مظلومانہ جمہوری جدوجہد اور آپس میں اتحاد و اتفاق ہے۔ ان دونوں تدابیر سے مظلوم مسلمان اقوام نے کبھی فائدہ اٹھایا ہی نہیں۔ مثلاً فلسطینی اور کشمیری آپس میں بیسیوں تنظیموں میں بٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے آج تک ایک متحد مقصد اور ایک متفقہ قائد پراتفاق نہیں کیا۔ اسی طرح اگر آج طالبان مسلح مزاحمت چھوڑ کر جمہوری جدوجہد کا راستہ اختیار کریں تو بہت جلد امریکیوں کو یہاں سے نکالا جاسکتا ہے۔

یہ بات ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ خودکشی جائز نہیں ہے۔ تاہم بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ’’ جنگِ موتہ کے دوران میں، جب کہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی اور مسلمان لشکر کی تعداد کم تھی، مسلمان فوجیوں نے موت پر بیعت کی تھی۔اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دشمن کے خلاف خود کش حملہ جائز ہے‘‘۔ یہ دلیل صحیح نہیں ہے۔ جنگ موتہ میں مسلمان لشکر، ریاستِ مدینہ کے حکم پر لڑرہا تھا۔ موت پر بیعت کا مطلب یہ تھا کہ ہم آخری دم تک لڑیں گے، لیکن میدانِ جنگ سے بھاگیں گے نہیں۔ یہ بات قرآن مجید کے اس ارشاد کے عین مطابق ہے جس میں مسلمان لشکر کو میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنے سے منع کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اِس ہدایت اور اِس واقعے کا خودکش حملوں سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ جنگ موتہ میں کسی مسلمان نے دشمن کے لشکر پر خودکش حملہ نہیں کیا۔اس جنگ میں صرف گیارہ مسلمان شہید ہوئے۔ عملاً یہ ہوا کہ مسلمان لشکر کے عزم وہمت کے نتیجے میں دشمن کا لشکر بے حوصلہ ہوگیا اور مسلمان لشکر کے سردار حضرت خالدؓ بن ولید کو یہ موقع مل گیا کہ وہ رات کی تاریکی میں اپنے لشکر کو محفوظ مقام پر منتقل کردیں۔ اس کے بعد دشمن کے لشکر کو مسلمانوں کا پیچھا کرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ درج بالا تجزئے کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ جنگ موتہ کے واقعات اور آج کل کے خودکش حملوں کا آپس میں کوئی موازنہ یا تعلق نہیں ڈھونڈا جاسکتا۔ 

اس ساری بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خودکش حملوں کا موجودہ سلسلہ امت مسلمہ کے وسیع تر مفاد میں نہیں ہے اور یہ تدبیراصولی اعتبا رسے بھی غلط ہے۔

B