نواں باب
وہ جنگ جو اُن مقاصد کے لئے لڑی جائے جن کا تذکرہ باب دوم میں ہوچکا ہے،قتال فی سبیل اللہ کہلاتی ہے۔اور اس کی مخالف فوج کی جنگ کو ’’قتال فی سبیل الطاغوت‘‘کہا جاتا ہے۔تاہم یہ ضروری نہیں کہ تمام جنگیں’’فی سبیل اللہ‘‘یا’’فی سبیل الطاغوت‘‘ہی کے زمرے میں آئیں۔بے شمار جنگیں زمینی تنازعات،غلط فہمیوں اور خفیہ سازشوں کے الزامات پر بھی لڑی جاتی ہیں، جن میں یہ کہنا بھی بعض اوقات مشکل ہوجاتا ہے کہ کون سے فریق کی بات میں کتنا وزن ہے۔چنانچہ یہ ضروری نہیں کہ ہرجنگ کو درج بالا دوخانوں ہی میں بانٹا جائے۔اسی لئے قرآن مجید نے جہاں دومسلمان ممالک کے درمیان جنگ کا تذکرہ کیا ہے،وہاں صرف لفظ ’’قتال‘‘استعمال کیا ہے۔اس ضمن میں سورۃ الحجرات49کی آیت9کا حوالہ پہلے آچکا ہے۔موجودہ زمانے کی بہت سی جنگوں کی نوعیت یہی ہے۔
دنیا کے اندر برپا ساری جنگوں کو درجِ ذیل گروپوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
O قتال فی سبیل اللہ
O قتال فی سبیل الطاغوت
O منصفانہ جنگ(جس میں جنگ چھیڑنے والا فریق حق پر ہو)
O عام جنگ (جو کسی غلط فہمی یا تنازعے کی وجہ سے جنم لے)
O غیر منصفانہ اور ظالمانہ جنگ(جس میں جنگ چھڑنے والے فریق کا موقف بے انصافی پر مبنی ہو)
O جنگِ آزادی
O متشدد انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے جنگ
پہلی دو کیٹیگریز پر اس کتاب میں بخوبی بحث کی جاچکی ہے۔ اس کے بعد کی تین کیٹیگریز بھی بالکل واضح ہیں۔ چنانچہ یہاں ہم آخری دو کیٹیگریز پر بحث کریں گے۔
جدوجہد آزادی کے ضمن میں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک قوم اپنی آزادی کے لئے جدوجہد کرے تو اس جدوجہد کی حدود وشرائط اور دائرہ عمل کیا ہونا چاہئیے۔دنیا کی معلوم تاریخ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر ایک قوم کسی ایک رہنما کی قیادت میں متحد ہوجائے اور گردوپیش کے حالات سازگار ہوں، توآزادی کی منزل جلد یا بدیر مل ہی جاتی ہے۔گویا آزادی کی جدوجہد اصلاً ایک سیاسی جدوجہد ہے، اور اگر یہ عدم تشدد کے اصول پر کاربند رہے، تو کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔
جہاں تک دین کے حوالے سے مسلح جدوجہد کا تعلق ہے،باب دوم کی بحث سے یہ بات ثابت ہے کہ کسی بھی مسلح اقدام کے لئے سب سے پہلی شرط کے طور پرریاست کا وجود ضروری ہے۔ریاست دراصل ایک زمینی خطے پر ایک حکومت کے قیام اور قانون کے نفاذ کو کہتے ہیں۔چنانچہ اگر قابض قوم کی گرفت اتنی ڈھیلی ہے کہ مقبوضہ عوام کے کئی علاقوں پر اس کا قبضہ ہی نہیں، اور محکوم قوم کسی ایسے علاقے میں اپنی ایک متفق علیہ حکومت قائم کرسکتی ہے، تو ایسی حکومت کے قیام کے بعد وہ اعلانِ جنگ کرکے قابض حکومت کے خلاف مسلح اقدام کرسکتی ہے۔اس کے علاوہ ایک دوسری صورت بھی ممکن ہے،وہ یہ کہ اگر کوئی ہمسایہ ملک علی الاعلان اس تحریکِ آزادی کی پشت پر کھڑا ہوجائے، اور اس ہمسایہ ملک کا قابض ملک سے امن کا معاہدہ نہ ہو، توہمسایہ ملک میں متفق علیہ جلاوطن حکومت بنا کر اس کی سرکردگی میں ایک متحد فوج کے ذریعے مسلح اقدام کیا جاسکتا ہے۔تاہم اس صورت میں یہ ضروری ہوگا کہ ہمسایہ ملک ایک معاہدے کے ذریعے مسلح اقدام کی حمایت کی ذمہ داری بھی قبول کرلے۔گویا پہلی صورت میں مسلح اقدام سے پہلے درج ذیل مراحل کا طے ہونا ضروری ہے:
O۔ کسی زمینی خطے میں ایک متفق علیہ حکومت کا قیام
O۔ ایک متحداور منظم فوج کے ذریعے جدوجہد آزادی
جہاں تک دوسری صورت کا تعلق ہے،اس کے لئے درج ذیل مراحل کا پہلے طے ہونا ضروری ہے۔
O۔ کسی ہمسایہ ملک میں ایک جلاوطن متفق علیہ حکومت کا قیام
O۔ ہمسایہ ملک کی قابض ملک سے امن کے معاہدے کی عدم موجودگی
O۔ ہمسایہ ملک کی طرف سے ایک معاہدے کے ذریعے جلاوطن حکومت کو تسلیم کرنے اور اس کے مسلح اقدام کی حمایت کا اعلان
O۔ اُس جلاوطن حکومت کے تحت ایک منظم اور متحد فوج کے ذریعے جدوجہدِ آزادی
اگر درج بالا شرائط پوری ہوں تو ایسی مسلح جدوجہد’’قتال فی سبیل اللہ‘‘ کے زمرے میں آئے گی اور اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو ایسا مسلح اقدام’’عام جدوجہد آزادی‘‘کے زمرے میںآئے گا۔
درج بالا اصول دین سے تو ثابت ہیں ہی،اگر دنیا کی معلوم تاریخ دیکھی جائے تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ جس مسلح جدوجہدِ آزادی میں درجِ بالا شرائط پوری ہوتی ہیں،وہ جدوجہد لازماً کامیاب ہوئی ہے اورجہاں جہاںیہ شرائط پوری نہیں ہوئیں،وہاں مسلح اقدام کی وجہ سے بدامنی،افراتفری،لاقانونیت اور مزید خرا بیوں نے جنم لیا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اگر درجِ بالا شرائط کسی وجہ سے پوری نہ ہوں تو ایک غلام قوم کب تک انتظار کرے۔اس کا جواب یہ ہے کہ ایک غلام قوم کم ازکم دو شرائط تو ہر وقت پوری کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہے۔ایک یہ کہ وہ ایک ہی سیاسی پارٹی کے تحت منظم ہوجائے۔(اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیسیوں سیاسی پارٹیاں بنیں، اور وہ اپنے درمیان ایک ڈھیلا ڈھالا اتحاد بنائیں۔کیونکہ ایسی صورت میں یہ اتحاد نہیں، بلکہ محض وقتی مفادات کا اکٹھ ہوتا ہے، اور دل جڑے ہوئے نہیں ہوتے)،اور دوسرا یہ کہ وہ خالصتاًپُرامن سیاسی اقدامات کے ذریعے اپنی جدوجہد جاری رکھے۔جب وہ صبرواستقامت کے ذریعے یہ جدوجہد جاری رکھے گی تو کسی نہ کسی وقت پروردگار ان کے لئے حالات سازگار بنا دے گا۔اس جدوجہد میں کئی سال بھی لگ سکتے ہیں اور کئی نسلیں بھی اس کی نذر ہو سکتی ہیں۔یہ جدوجہد غیر معینہ عرصے تک جاری رہے گی اور اس دوران میں صبر کے ساتھ اللہ کی مدد کا انتظار کرنا چاہئیے۔مثلاً 1857ء کے بعد برصغیر میں آزادی حاصل کرنے کے لیے پُرامن جدوجہد ہوئی، اور اس کے نتیجے میں نوے (90)سال بعد آزادی نصیب ہوئی۔
اگر کسی غلام قوم کے اندر اتحاد واتفاق نہیں ہے، تو ایسی قوم ابھی سرے سی آزادی کی اہل ہی نہیں ۔ ایسی حالت میں مسلح جدوجہد تو غلام قوم کے لیے مزید نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ چنانچہ غلام قوم کی سب سے بڑی ضرورت اتحاد ، صبر اور عدم تشدد پر مبنی مستقل جدوجہد ہے۔
یہ بھی ضروری نہیں کہ کامل آزادی سے کم کسی بات سمجھوتہ ہی نہ ہو۔کیونکہ دنیا کے اندر جمہوریت کی طرف پیش رفت نے اب یہ بات ممکن بنادی ہے کہ ایک قوم کو کامل آزادی نہ ملے، اور تب بھی وہ اپنے اندرونی معاملات،قانون اور کلچر میں بالکل خود مختار ہوسکتی ہے۔چنانچہ ایسی ہر صورت میں اصول یہ ہونا چاہئیے کہ دستیاب حالات کی روشنی میں مقبوضہ قوم کو زیادہ سے زیادہ انسانی اور اسلامی حقوق کس طریقے سے دلائے جاسکتے ہیں۔
دہشت گردی نسبتاًجدید اصطلاح ہے اور اس کے متفقہ معنی اب تک بیان نہیں کئے جاسکے۔اس کے سیاسی پہلو پر بعد میں بحث کی جائے گی۔فی الوقت ہم اپنی آسانی کے لئے اس کی یہ تعریف متعین کردیتے ہیں کہ ’’ہر وہ مسلح عمل دہشت گردی ہے جس میں دہشت پیدا کرکے اپنے مقاصد کے حصول کی کوشش کی جائے اور اس عمل میں جان بوجھ کر ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جن کی وجہ سے جنگ میں غیر شریک افراد کے جان ومال کو نقصان پہنچے‘‘۔
تاہم ہمارے نزدیک دہشت گردی کی اصطلاح بہت مبہم ہے۔ اس کے بجائے ہمیں اس بات پر غوروفکر کرنا چاہیے کہ کیا ایک متشدد انتہا پسند تنظیم، یا کسی بھی تنظیم کو یہ اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ اسلحہ اٹھائے اور لڑائی شروع کردے۔ عالمِ اسلام کے لیے اصل سوال یہی ہے، کیونکہ عام دنیا اسی کو دہشت گردی کہتی ہے۔ جیسا کہ اس سے پہلے بحث کے دوران میں ہمیں معلوم ہوا کہ جنگ کی اجازت صرف ریاست کو ہے۔ کسی بھی تنظیم یا فرد کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اسلحہ اٹھاکر لڑنے کا فیصلہ کرے۔ یہ اختیار صرف حکومت کو ہے ، اور وہ بھی چند مزید شرائط کے ساتھ ہے۔ کسی تنظیم یا فرد کے سامنے یہ راستہ ضرور کھلاہے کہ وہ پُرامن طریقے یعنی عدم تشدد کے ذریعے سے لوگوں کو اپنے نقطۂ نظر پر قائل کرے، اور اس طرح تبدیلی لانے کی جدوجہد کرے۔
جیسا کہ ہم باب دوم میں بیان کرچکے،اسلام کی رو سے جنگ کے دوران صرف محاربین (combatants) کو قتل کیا جاسکتا ہے، اورغیر محاربین کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا۔یہ عین ممکن ہے کہ جنگ میں عملاً شریک نہ ہونے والوں نے اپنے ٹیکس اور مال کے ذریعے محاربین کی مدد کی ہو، لیکن اگر محاربین کی کمر ٹوٹ جائے، توان غیر محاربین کامال ان کے کچھ کام نہ آسکے گا۔چونکہ اسلام اس دنیا میں امن کو پسند کرتا ہے،اس لئے اس نے کم سے کم خونریزی ہی کو حلال ٹھہرایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس نے صرف محاربین کے خلاف مسلح اقدام کی اجازت دی ہے۔اگر یہ پابندی نہ لگائی جائے تو پھر کسی بھی حیلے بہانے سے ہر انسان کا خون جائز قرار دیا جاسکے گا۔مثلاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنگ کے موقعہ پر نابالغوں اور شیرخوار بچوں کو بھی قتل کیا جاسکتا ہے، اس لئے کہ یہی لوگ بڑے ہو کر ہمارے خلاف لڑیں گے۔گویا خوئے بد رابہانہ بسیار۔
ایسی دہشت گردی کی مرتکب ایک حکومت بھی ہوسکتی ہے،ایک گروہ بھی، اور ایک فرد بھی۔تاریخ ایسی دہشت گردی کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔بلکہ پرانے زمانے میں تو فتح کے بعد معصوم لوگوں کے قتل اور ان کے جان ومال کے لوٹنے کی باقاعدہ اجازت فوجیوں کو دی جایا کرتی تھی۔فرعونیوں نے بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرکے دہشت گردی کا ارتکاب کیا۔ہلاکو خان نے بغداد کے لوگوں قتل عام کیا۔امیر تیمور نے کئی مرتبہ غیر مسلموں اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کا ارتکاب کیا۔ نادرشاہ نے فتح کے بعد چار دن تک دہلی کے ہرباشندے کے خون بہانے کو جائز قرار دیا۔پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں دونوں فریقوں نے کئی مرتبہ دہشت گردی کاارتکاب کیا۔ہیروشیما اور ناگاساکی پرامریکہ نے ایٹم بم برساکر دہشت گردی کی۔افغانستان میں تمام فریقوں نے وقتاً فوقتاً دہشت گردی کی کاروائیاں کیں۔بدقسمتی سے یہ کاروائیاں آج بھی جاری ہیں۔
یہ ممکن ہے کہ کسی فوجی تنصیب کو نشانہ بناتے ہوئے ضمنی طور پر معصوم لوگوں کو بھی نقصان پہنچ جائے۔ایسانقصان دہشت گردی نہیں، تاہم اس سے حتی الوسع بچنا چاہیے۔
خود کش حملے
زمانۂ حال میں مسلمانوں کی طرف سے جو خودکش حملے کیے جارہے ہیں، اُن کی درجِ ذیل اقسام ہیں۔
O مزاحمتی تنظیموں کی طرف سے قابض غیر مسلم افواج کے خلاف حملے۔ اِس کی مثال افغانستان میں خودکش حملے ہیں۔
O مزاحمتی تنظیموں کی طرف سے ایک مسلمان ملک کی افواج پر کیے جانے والے حملے، جن کے لیے یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ یہ مسلمان ملک بھی اُس غیر مسلم جارح ملک کا ساتھی ہے۔ اِس کی مثال پاکستانی افواج پر کیے جانے والے حملے ہیں۔
O مختلف مسلح مذہبی تنظیموں کی طرف سے اپنی مخالف مسلکی تنظیموں پر کیے جانے والے حملے، جن کے لیے یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ چونکہ یہ تنظیمیں کافر ہیں۔ اس لیے ان کے خلاف خودکش حملے جائز ہیں۔ پاکستان میں موجود اہلِ تشیع کی مساجد اور شخصیات پر حملے، اور بریلوی مکتب فکر کے جلسوں اور شخصیات پر کیے جانے والے خودکش حملے اِن میں شامل ہیں۔ اس طرح عراق میں اہلِ تشیع پر کیے جانے والے حملے بھی اِس کا ایک حصہ ہیں۔
O مختلف مسلح تنظیموں کی طرف سے بعض اوقات ہوٹلوں، دکانوں اور مارکیٹوں میں بھی حملے کیے جاتے ہیں، اور اس کے لیے یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ اِس ملک کی حکومت اور مسلح افواج کے حوصلوں کو پست کرنے کے لیے عام جگہوں پر بھی حملے ضروری ہیں۔ یہ جواز بھی پیش کیا جاتا ہے کہ اگر اِن میں سے بے گناہ لوگ مر جائیں تو یہ کوئی بری بات نہیں ہے ،کیونکہ یہ لوگ بھی جنت میں پہنچ جائیں گے۔ یہ جواز بھی پیش کیا جاتا ہے کہ اِن مسلح تنظیموں میں شامل افراد کے علاوہ باقی سب لوگ گناہ گار اور خارج ازدائرہ اسلام ہیں، اِس لیے کہ یہ لوگ جنگ میں حصہ نہیں لے رہے، چنانچہ خودکش حملوں میں اِن کا ہلاک ہونا بھی بالکل صحیح ہے۔
O ان افراد کو بھی قتل کیا جاتا ہے جو خودکش حملوں سے علمی طور پر اختلاف کرتے ہیں، جیسے مولانا حسن جان کی شہادت۔ ایسے افراد کے خلاف بسا اوقات خودکش حملے بھی کیے جاتے ہیں۔
درحقیقت سب خودکش حملے اسلامی اعتبار سے غلط ہیں۔ اِن میں کوئی استثنا ء نہیں ہے۔ اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ کسی بھی مسلک یا حکومت یا گروہ کے خلاف لڑائی کا اعلان صرف اور صرف ایک مسلمان حکومت کا اختیار ہے۔ کسی تنظیم، گروہ یا کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ازخود کسی کے خلاف اعلانِ جنگ کرے اور اسلحہ اٹھائے۔ اِس اصول کے دلائل باب دوم میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان ہوچکے ہیں۔ سارے خودکش حملے دراصل مختلف تنظیموں کی طرف سے لڑائی کے ایک حصے کے طور پر کیے جاتے ہیں۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ قرآن وحدیث نے خودکشی کو نہایت واضح طور پر قتلِ انسانی کے برابر جرم قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے:
وَلاَ تُلْقُوْا بِاَیْْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ(سورۃ بقرہ-2آیت195کا ایک حصہ)
’’اپنے ہی ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو‘‘۔
خودکش حملہ آور بہت اچھی طرح یہ بات جانتے ہیں کہ اُن کے حملے میں بہت سے مسلمان مریں گے۔ ایسے لوگ بھی مریں گے جن کا جنگ وجدل سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ بلکہ اب تک کے خودکش حملوں سے تو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ان میں نوے فیصد (90%)سے زیادہ بے گناہ مسلمان ہی مرے ہیں۔ اس کے متعلق قرآن مجید نے فرمایا
’’وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیْہَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا()(سورہ نساء 3،آیت نمبر93)
’’وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اُس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اُس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اُس کے لیے اللہ نے ایک بڑی سزا مقرر کررکھی ہے‘‘۔
اس طرح صحیح احادیث میں بھی خودکشی کو بدترین گناہ قرار دیا گیا ہے۔مثلاً ایک روایت کے مطابق حضورؐ نے ارشاد فرمایا:
’’جس شخص نے اپنے آپ کو لوہے کے ذریعے قتل کیا تو وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ اُس لوہے کو اپنے جسم میں گھونپتا رہے گا۔ جس شخص نے کسی بلند جگہ سے چھلانگ لگاکر خودکشی کی تو وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھلانگ لگاتا رہے گا۔ جس شخص نے زہر پی کر خود کو ہلاک کیا تو ایسا شخص جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زہر پیتا رہے گا‘‘۔ (بخاری۔حدیث نمبر1275)
اگر خودکشی کسی بھی طریقے سے جائز ہوتی، تو قرآن وحدیث میں اِس کی طرف لازماً کوئی اشارہ موجود ہوتا، اور حضورؐ اور صحابہ کرامؓ کے زمانے میں اس سے بھرپور کام لیا جاتا۔ حضورؐ کے مکی دور میں اندازاً دس فیصد لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ اُن کا ایمان ہمارے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ تھا۔ اگر حضورؐ چاہتے تو اُن کے خودکش سکواڈ تیار کرکے دشمنانِ اسلام کو قتل کرڈالتے۔ لیکن اُس زمانے میں تو صحابہ کرامؓ نے اپنے اوپر کیے جانے والے کسی ظلم کا بدلہ تک نہیں لیا۔
سوائے قتال فی سبیل اللہ کے، نسل انسانی کو نقصان پہنچانے والے کسی بھی عمل کااسلام مخالف ہے۔ قتال فی سبیل اللہ میں بھی صرف انہی افراد سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے جو جنگ میں براہِ راست حصہ لے رہے ہوں،( ملاحظہ ہو سورہ بقرہ 2آیت190)۔ عام افراد کے قتل کو اللہ نے جرم قرار دیا ہے۔
ارشاد ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُہٗ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیُشْہِدُ اللّٰہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ وَہُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ() وَاِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیِْہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ الفَسَادَ() وَاِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُہٗ جَہَنَّمُ وَلَبِءْسَ الْمِہَادُ()(سورۃ بقرہ -2آیات206......204)
’’(اے رسولؐ کے ساتھیو!)لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کی باتیں اس دنیا کی زندگی میں تمھیں بہت میٹھی معلوم ہوتی ہیں، اور وہ اپنی نیک نیتی پر بار بار اللہ کو گواہ ٹھہراتے ہیں، لیکن دراصل وہ تمھارے بدترین دشمن ہیں۔جب (وہ تمھارے ہاں سے) ہٹتے ہیں تو ان کی ساری تگ ودو اس لیے ہوتی ہے کہ زمین میں فساد پھیلائیں،کھیتیوں کو غارت کریں اور نسل انسانی کو تباہ کر دیں۔حالانکہ اللہ فسادکو پسند نہیں کرتا۔جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو تو غرور وتکبر ان کو گناہ پر جما دیتا ہے۔ان کے لیے جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔‘‘
قرآن مجید کے مطابق کسی ایک انسان (نہ کہ صرف مسلمان) کا قتل اتنا سنگین جرم ہے کہ یہ پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ اور اگر کوئی شخص کسی ایک انسان، (نہ کہ صرف مسلمان) کی جان بچاتا ہے، تو یہ گویا یوں ہے جیسے پوری انسانیت کی جان بچائی جائے۔ ارشاد ہے:
مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا وَلَقَدْ جَآءَ تْہُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنَاتِ ثُمَّ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ()(سورہ مائدہ -5آیت32)
’’(انسان کے جرائم کی طرف میلان کی)اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ فرض کردیا کہ’’جس نے کسی انسان کو قتل کیا ،بغیر اس کے کہ اس (مقتول) نے کسی کو قتل کیا ہو یا ملک میں فساد برپا کیا ہو،تو گویا اس (قاتل) نے سب انسانوں کو قتل کیا۔اور جس نے کسی انسان کی جان بچائی، اس نے گویا تمام انسانوں کی جان بچائی۔
ہمارے رسول اِن کے پاس واضح احکام لے کر آئے ، مگراس کے باوجود ان میں سے بہت سے لوگ زمین میں زیادتیاں کرتے ہیں۔‘‘
درج بالا آیت کو باربار غور سے پڑھیے۔ کیا اس آیت کے تحت ایسی کوئی گنجائش ہے کہ خودکش حملے کیے جائیں اور اپنے آپ کو یہ کہہ کر مطمئن کردیا جائے کہ اگر اس میں بے گناہ لوگ مر جائیں گے تو کوئی بات نہیں۔ کیا اِس بات کے لیے قرآن وحدیث میں کہیں کوئی دلیل موجود ہے؟۔