آٹھواں باب
دین اپنی حقیقت میں دو ہی چیزوں کا نام ہے۔ ایک قرآن مجید اور دوسرا سنت۔ حضورؐ کی وفات کے بعد ریاستی اور اجتماعی معاملات میں دینی احکام معلوم کرنے کے لیے ایک سادہ اور واضح طریق کار اپنایا گیا۔ وہ یہ کہ ہر معاملے میں پہلے قرآن مجید اور اس کے بعد حضورؐ کے ارشادات سے رہنمائی حاصل کی جاتی۔ اگر کسی معاملے میں ان سرچشموں سے ہدایت نہ ملتی، تو اپنی عقل وفہم سے کام لے کر جمہوری طریقے سے فیصلہ کیا جاتا۔ یہی فطری طریقہ تھا اور اسی کو جاری رہنا چاہیے تھا۔ اگر یہ طریقہ کارجاری رہتا اور نئی نئی اصطلاحات وضع کرنے کے بجائے قرآن وحدیث کی اصطلاحات ہی کے ذریعے دین کو واضح کیا جاتا، تو دین کو سمجھنا اور سمجھانا بہت آسان ہوتا۔
حضورؐ کی وفات کے تقریباً ایک سو برس بعد مسلمانوں پرِ فقہ کے علم کا غلبہ ہوا۔ اس علم کی ابتدا بڑی نیک نیتی سے ہوئی۔ اُس وقت اسلام دنیا کے بہت سے کونوں میں پھیل چکا تھا اور نئے لوگ بڑی تیزی سے دائرہ اسلام میں داخل ہورہے تھے، اس لیے کچھ علماء کو یہ خوف لاحق ہوا کہ یہ نئے لوگ جلدی قرآن وحدیث سے واقف نہ ہوسکیں گے، لہٰذا ان کے لیے دین کی ضروریات کو ایک قانونی شکل میں بیان کردیا جائے۔ چنانچہ اس طرح دین کی قانونی ترتیب (codification) کاکام شروع ہوا۔ جب ایک دفعہ یہ کام شروع ہوا تو پھر یہ سلسلہ کہیں پر نہ رُکا۔ ہر مکتب فکر نے نئی نئی اصطلاحات وضع کرنی شروع کیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس علم کو انتہائی پیچیدہ بنا دیا گیا۔ ہر مکتب فکر نے ہر اصطلاح کی اپنی تعریف متعین کردی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہی اصطلاح سے ایک گروہ کے فقہا کچھ اور مراد لیتے تھے اور دوسرے گروہ کے فقہا کچھ اور۔ جب مختلف مکاتیب فکر کے علماء کا آپس میں مکالمہ ہوتا تو یہ پیچیدگی اپنی آخری انتہا کو پہنچ جاتی کیونکہ دونوں طرف سے ایک ہی اصطلاح مختلف معنوں میں استعمال کی جاتی تھی۔ جب ایک عرصے تک یہ معاملہ جاری رہا تو فقہا کو یہ ڈر ہوا کہ اس سے بڑی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ چنانچہ یہ سوچ پروان چڑھی کہ اب مزید بحث واجتہاد کا دروازہ بند کردیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں جمود آیا، ہر گروہ اپنی اپنی فقہی آرا پر سختی سے جم گیا اور مسلمان معاشرے میں مذہبی معاملات میں انتہا پسندی اور جمود نے جنم لیا۔
ہمارے لیے آج کے حالات میں یہ ضروری ہے کہ ہم دین کو سمجھنے کے معاملے میں صحابہ کرامؓ کا طرزِعمل اختیار کریں۔ وہ یہ کہ ہر چیز میں ہمارے لیے اصل ہدایت کا سرچشمہ قرآن وسنت اور حدیث ہیں۔ اس کے بعد اہلِ علم نے اپنے اپنے زمانوں میں اپنے حالات کے مطابق جو رائے ظاہر کی ہے، وہ سب ہمارے لیے بہت قابلِ قدر ہیں۔ تاہم اُن میں سے کسی بھی بات کی پیروی ہم پر لازم نہیں ہے۔
اسلام کے قانونِ جنگ کے ضمن میں بھی فقہ میں بہت سی اصطلاحات بنائی گئیں ان میں سے اکثر اصطلاحات آج کے حالات میں بالکل غیر متعلق ہیں۔ ان کا مختصر تعارف وتجزیہ یہاں پیش کیا جارہا ہے۔
اس کا لفظی ترجمہ ہے اسلام کا گھر باوطن۔یہ اصطلاح قرآن وحدیث میں استعمال نہیں ہوئی۔فقہا کی اصطلاح میں اس سے اول ادل مراد وہ ملک لیا گیا جس کا سربراہ مسلمان ہو،اور جہاں شریعت کے احکام نافذ ہوں۔اس اصطلاح کی یہ تعریف ہم نے بہت آسان کرکے پیش کی ہے،ورنہ اس کی تعریف میں بھی بے شمار اختلافات ہیں۔مثلاً اس بات پر بہت اختلاف ہے کہ حکمران کے اندر وہ کونسی صفات لازمی ہیں،جن کے بعد کسی جگہ کو دارالاسلام قرار دیا جاسکتا ہے۔یا مثلاً جس ملک میں مشرکین وبُت پرست بھی اقلیت کی حیثیت سے رہتے ہوں،کیا اسے دارالاسلام قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں۔
فقہا میں اس امر پر بھی ایک لمبی بحث چھڑی کہ شریعت کے نفاذ سے کیا مراد ہے۔کچھ فقہا اس انتہا تک گئے کہ اگر کسی ملک میں شریعت کلی طور پر نافذ نہ ہو تو اسے دارالاسلام نہیں کہا جاسکتا۔گویا اس تعریف کے مطابق دورِ خلفا ئے راشدین کے بعد کسی دارالاسلام کا قیام ممکن نہیں، اس لئے کہ ہر حکومت میں اسلامی اعتبار سے کوئی نہ کوئی خامی یا کمزوری تو لازماً پائی جاسکتی ہے۔
اس کے برعکس بہت سے فقہا نے یہ کہا کہ مسلمانوں کے جس ملک میں اسلام کا کوئی ایک حکم بھی نافذ ہے،اسے دارالاسلام یا دارالمسلمین کہاجائے گا۔اس تعریف کے مطابق مسلمانوں کا ہر ملک دارالاسلام ہے، اس لئے کہ کسی مسلمان ملک میں کوئی حکمران نماز سے انکار نہیں کرتا، اور، کبھی کبھار یا دکھاوے ہی کے لیے صحیح، نماز پڑھتا ہے۔
تصورات کے اسی فرق سے اختلافات کی ایک دنیا وجود میں آئی اور ہر ایک فقیہہ نے اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق دارالاسلام کے قواعد وضوابط مرتب کرنے کی کوشش کی۔ان قواعد وضوابط کے مطالعے سے یہ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بیشتر کا تعلق اُس وقت کے سماجی اور مقامی حالات سے تھا، جس کے متعلق قرآن مجید اور صحیح احادیث نے ہمیں کسی بات کا پابند نہیں کیا۔مثلاً ان کے ہاں اس نکتے پر بڑی بحث ہے کہ کسی دوسرے ملک سے دارالاسلام میں آنے والے فرد کویہاں کتنی مدت کے لئے ٹھہرنے کی اجازت ہونی چاہئیے۔اس نکتے کے متعلق اپنے اپنے نقطہ نظر کو ثابت کرنے کے لئے جتنے دلائل کا سہارا لیا گیا ہے،ان کا تعلق قرآن وحدیث کے بجائے عام عقل (common sense)سے ہے۔
آج کے حالات میں اس اصطلاح اور اس سے متعلق بحثوں کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ قرآن مجید میں سورہ فاطر 35، آیت نمبر32میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں میں بہت اچھے اور معیاری لوگ بھی ہوسکتے ہیں، درمیانے درجے کے افراد بھی ہوسکتے ہیں اور بُرے لوگ بھی ہو سکتے ہیں۔ ریاست دراصل افراد کا مجموعہ ہی تو ہوتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کی کوئی ریاست بہت معیاری بھی ہوسکتی ہے، درمیانے درجے کی بھی ہوسکتی ہے اور بہت بُری بھی ہوسکتی ہے۔ خودحضورؐ نے کبھی بھی جزیرہ نمائے عرب کے لیے کوئی نیا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ اسے ہمیشہ سرزمینِ عرب ہی کہا۔ آج سیاسی طور پر’’مسلمان ملک‘‘ یا ’’اسلامی ملک‘‘کی اصطلاح ہر اس ملک کے لئے استعمال کی جاتی ہے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو،مسلمان ہی حکمران ہوں اور وہ ملک اپنے آپ کو امتِ مسلمہ کا حصہ قرار دیتا ہو۔یہ ایک ڈھیلی ڈھالی اصطلاح ہے اور اسے ایسا ہی ہونا چاہئیے۔اس لئے کہ قرآن حکیم اور صحیح احادیث نے اس ضمن میں کوئی اصطلاح و ضع نہیں کی۔
اس کا لفظی ترجمہ ہے لڑائی کا گھر یا جنگ کی سرزمین۔ابتدا میں اس کی تعریف یہ کی گئی کہ ہروہ ملک دارالحرب ہے جہاں دشمنانِ اسلام بستے ہوں، یعنی جو ملک کھلم کھلا اپنے آپ کو مسلمانوں کا دشمن قراردیتا ہو اور جہاں مسلمانوں کی عبادت گاہیں محفوظ نہ ہوں۔
اس ابتدائی تعریف کے بعد بے شمار اختلافات نے جنم لیا۔مثلاً یہ سوال اٹھایا گیا کہ دشمنِ اسلام کون ہے۔اس کا ایک جواب یہ دیا گیا کہ صرف وہ ملک دشمن ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سرکشی اور عداوت کا اظہار کرے۔اس کے بالکل برخلاف دوسرا جواب یہ دیا گیا کہ ہر غیر مسلم ملک دارالحرب ہے۔
اسی طرح یہ سوال بھی اٹھا کہ مسلمانوں کی عبادت گاہیں محفوظ ہونے سے کیا مراد ہے۔جس ملک میں بلحاظ مجموعی مسلمانوں کی عبادت گاہیں محفوظ ہوں، لیکن کچھ عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا جائے،اس کا شمار کس زمرے میں کیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔
قدیم زمانے میں یہ اصطلاح اہمیت کی حامل تھی اس لئے کہ اُس وقت ہر جگہ آمرانہ نظام قائم تھا، جس کی وجہ سے غیر مسلم ممالک میں تبلیغِ اسلام کا کام ناممکن حد تک مشکل تھا۔چنانچہ زیادہ تر ممالک دارالحرب کی تعریف پر پورے اترتے تھے۔اب سارے ممالک اقوام متحدہ کے جھنڈے تلے اور دوسرے بین الاقوامی معاہدات کے تحت آپس میں تعلق رکھتے ہیں، پاسپورٹ اور ویزا ہے اور سفارتخانے قائم ہیں۔ اورتقریباً ہر ملک میں اسلام کی تبلیغ کی اجازت ہے۔ چنانچہ اِن معنوں میں اب کوئی ملک دارالحرب نہیں رہا۔
چونکہ یہ اصطلاح بھی قرآن وحدیث سے ہٹ کر بنائی گئی ہے۔اور اس سے کئی غلط فہمیوں اور الجھاؤ نے جنم لیا ہے اس لئے اب اس اصطلاح کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
(درج بالا دونوں اصطلاحات کے متعلق مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو’’اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘‘جلد9۔صفحہ102تا104اور صفحہ110تا112)
اس کا لفظی ترجمہ ہے معاہدہ کی سرزمین یا صلح کی سرزمین۔اس کا مطلب ہے وہ ملک جو کسی مسلمان ملک کے ساتھ صلح کا معاہدہ طے کرے۔
قرآن مجید میں بہت وضاحت کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ دوسرے ممالک سے صلح کا معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر کسی غیر مسلم ملک سے صلح کا معاہدہ ہو، تو اس معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کرکے وہاں کی مسلم اقلیت کی مدد بھی نہیں کی جاسکتی۔ دراصل کسی ملک سے صلح یا معاہدہ کرنا عقلِ عام پر مبنی ایک چیز ہے۔اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔دنیا میں ہمیشہ سے معاہدے ہوتے رہے ہیں اور ہمیشہ ہوتے رہیں گے۔اسلام کی ہدایت یہ ہے کہ اگر اس طرح کا کوئی معاہدہ ہوجائے تو روح ومعنی کے ساتھ اس پر عمل کیا جائے۔
(اس اصطلاح کے متعلق مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو’’اردو دائرہ معارف اسلامیہ ‘‘جلد 9۔ صفحہ 115-114اور 134-133)
فقہا کے درمیان جنگ کی دواقسام پر بھی زور دار بحثیں ہوئی ہیں یعنی اقدامی جنگ اور دفاعی جنگ۔اقدامی جنگ سے ان کی مراد وہ جنگ ہے جب ایک اسلامی حکومت خود آگے بڑھ کر کسی دوسرے ملک پر حملہ آور ہو ،جب کہ دفاعی جنگ سے مراد وہ جنگ ہے جب کوئی دوسرا ملک کسی اسلامی ملک پر حملہ آور ہو۔اس ضمن میں ان دونوں جنگوں کی شرائط وغیرہ پر بھی بحثیں ہوئی ہیں ۔ فقہا جس زمانے میں یہ بحثیں کر رہے تھے،اُس زمانے کے حوالے سے یہ بحثیں بالکل صحیح تھیں۔اس لئے کہ اُس زمانے میں سرحدی حد بندیاں واضح نہیں تھیں،باقاعدہ افواج اتنی بڑی تعداد میں نہیں ہو تی تھیں،اور سرحدوں پر گشت کاطریقہ بہت مشکل تھا۔دشمن کے حملے کی اطلاع دارالحکومت میں پہنچتے پہنچتے بہت وقت لگ جاتا تھا۔پھر وہاں سے احکامات اور فوج بھیجنے میں مزید وقت صرف ہوجاتا تھا۔ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں اگر حاکمِ وقت کے حکم کا انتظار کیا جاتا تو دشمن کی افواج ایک بڑے علاقے پر قابض ہوچکی ہوتیں۔چنانچہ اس کا حل یہ ڈھونڈ لیا گیا کہ ایسے حملے کے موقعہ پر یہ سمجھاجائے کہ حاکمِ وقت نے پہلے سے ہی ایسے حملے کی مزاحمت کی ہدایات دی ہیں۔ چنانچہ مزید ہدایات آنے تک حملے کو روکنے کی اپنی پوری کوشش کی جائے۔اس وقت افواج اور عام لوگوں کے پاس تقریباًایک ہی طرح کا اسلحہ ہوا کرتا تھا۔اس لئے ایسے حملے کو روکنے کی کوشش ممکن بھی تھی۔آج کے حالات میں یہ بحث بالکل غیر متعلق ہے۔اب تو سرحد کی خبریں دارالحکومت میں پل بھر میں پہنچ جاتی ہیں،سرحدات کی حدبندی اور حفاظت کا ایک باقاعدہ نظام قائم ہے۔ہر اقدام کو فوری طور پر مرکز سے کنڑول کیا جاسکتا ہے۔پھر افواج کے پاس ایسا اسلحہ ہوتا ہے جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہوتا، چنانچہ عام لوگوں کی طرف سے مزاحمت ایک حد سے زیادہو بھی نہیں سکتی۔چنانچہ آج ان دونوں جنگوں کے درمیان احکام کے اعتبار سے فرق نہیں کیا جاسکتا۔واضح رہے کہ قرآن حکیم اور صحیح احادیث میں بھی اس ضمن میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔
دفاعی جنگ کے ضمن میں ایک اور اصطلاح’’نفیرِ عام‘‘استعمال کی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ دفاعی جنگ کے لئے صرف نفیرِ عام ہی شرط ہے۔
نفیر کالفظی معنیٰ ہے’بگل‘۔ گویا اس اصطلاح کے لفظی معنی یہ ہیں کہ سب لوگوں کے لیے جنگ کا بگل بج گیا ہے۔ نفیرِ عام کا اصطلاحی مطلب ہے’’حکمران کی طرف سے اپنے ملک کے ہر مسلمان کو جنگ کے لئے طلب کرنا۔‘‘ظاہر ہے کہ ایسے حالات کسی بھی ملک میں پیش آسکتے ہیں جب ہر فرد کو لازمی فوجی خدمت کے لئے طلب کیا جائے۔یہ سلسلہ ہمیشہ سے چلتا آرہا ہے،اس کی ضرورت آج بھی بہت سے ملکوں کو ہے، اور ہمیشہ رہے گی۔اسی لئے کئی ممالک میں یہ قانون ہے کہ ہر بالغ فرد فوجی تربیت حاصل کرے گا، اور بوقتِ ضرورت فوجی خدمت کے لئے تیار رہے گا۔اگر کوئی مسلمان حکومت ایسا کرنا ضروری خیال کرتی ہے،تو وہ بھی یہ حکم جاری کرسکتی ہے۔گویا اس کا تعلق وقت اور حالات سے ہے،دین کے کسی صریح حکم سے نہیں۔
جہاں تک پرانے فقہا کی اس بات کا تعلق ہے کہ’’دفاعی جہاد کے لئے صرف نفیرِ عام کی شرط ہے‘‘،اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر اسلامی حکومت کی طرف سے یہ پیشگی حکم(standing order)ہوتا تھا کہ کسی بھی غیر ملکی جارحیت کے جواب میں ہر فرد اپنی استطاعت کے مطابق فوری طور پر مزاحمت شروع کردے۔یہ بات اُس وقت کے حالات کے اعتبار سے صحیح تھی، لیکن آج کے حالات میں ناقابل عمل ہے، اس لئے کہ ٹینکوں،میزائیلوں،بکتر بند گاڑیوں،جہازوں اور اسی طرح کے دوسرے تباہ کن اسلحہ کے مقابلے میں ایک عام آدمی کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔
’’لازمی فوجی خدمت‘‘کے معاملے میں قرآن مجید کی ہدایت یہ ہے کہ قتال فی سبیل اللہ میں حصہ لینے کا اجر بہت زیادہ ہے مگر یہ لازم نہیں(سورۃ نساء4:آیت95)۔تاہم سخت حالات میں اسلامی حکومت ہر بالغ فرد کوجنگ میں حصہ لینے کا حکم دے سکتی ہے جیسا کہ حضورؐ نے غزوہ تبوک کے موقعہ پر کیا۔ تاہم جنگ میں شریک نہ ہونے والے کسی بھی منافق کو سزا نہیں دی گئی۔البتہ جن تین مومنین صادقین نے یہ اعتراف کرلیا کہ انہوں نے محض سستی کی وجہ سے اس سفر میں شرکت نہیں کی تھی،ان کو براہ راست پروردگار نے ایک وقت کے لئے مسلمانوں کی طرف سے معاشرتی مقاطعے کی سزا دی۔اس سزا کا اسلام کے عام جرم وسزا کے قانون سے کوئی تعلق نہیں۔
درجِ بالا بحث سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ آج کل کے حالات میں اِس اصطلاح کی کوئی ضرورت نہیں۔