HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Dr. Farooq Khan

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

صحابہ کرامؓ کی جنگی مہمات

ساتواں باب 

یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضورؐ کی وفات کے بعد صحابہ کرامؓ نے جو جنگیں لڑیں، اور ملک فتح کیے، اُن کی نوعیت کیا تھی؟۔ 

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حالات کی مجبوری تھی۔ اس کی دراصل تین بنیادی وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ سرزمینِ عرب کے ایک طرف بہت بڑی رومی سلطنت تھی، اور دوسری طرف بہت بڑی ایرانی سلطنت تھی۔ یہ دونوں سلطنتیں اپنی ہمسائیگی میں ایک اور بڑی طاقت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ ان دونوں حکومتوں نے حضورؐکے زمانے میں ہی اپنی دشمنی ظاہر کردی تھی، اور رومی سلطنت کی طرف سے تو باقاعدہ لڑائی کی تیاری بھی ہوگئی تھی۔ چنانچہ یہ حالات کا جبر تھا کہ خلفائے راشدین کو ان دونوں سلطنتوں سے لڑنا پڑا۔ اگر صحابہ کرامؓ ان دونوں دشمنوں سے نہ لڑتے، اور لڑائیاں نہ جیتتے، تو آج (خاکم بدہن) اسلام کا نام ونشان بھی نہ ہوتا۔ 

دوسری وجہ یہ ہوئی کہ سرحدات پر رہنے والے کئی غیر مسلم قبائلی گروہوں نے اسلامی حکومت میں لوٹ مار شروع کردی۔ یہ لوگ سرحد پار کرکے اسلامی حکومت میں بدامنی پھیلاتے، اور پھر ہمسایہ ممالک میں پناہ لے لیتے۔ چنانچہ یہ ضروری تھا کہ ان کا نوٹس لیا جائے، اور اس نئی ریاست کو خطرات سے بچایا جائے۔ اکثر اوقات ہمسایہ ممالک کی خفیہ مدد بھی ان لوٹ مارکرنے والے قبائل کے ساتھ ہوتی۔ چنانچہ ان کا قلع قمع کرنا ضروری تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جن ممالک کی طرف سے ایسی کوئی کاروائی نہیں کی گئی، مثلاً حبش، بحرین، اور مصر، ایسے ممالک سے امن کے معاہدے کیے گئے۔ 

تیسری وجہ یہ ہوئی کہ اُ س زمانے میں کسی ملک کی رعایا کے لیے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے بادشاہ کے دین کے علاوہ کسی اور دین کو قبول کریں۔ چنانچہ حضورؐ نے اپنی وفات سے تقریباً چار سال پہلے جزیرہ نمائے عرب کے ارد گرد کے تمام حکمرانوں کو خطوط کے ذریعے سے اسلام کی دعوت دی۔ یہ خطوط صلحِ حدیبیہ کے بعد لکھے گئے تھے۔ ان میں سے آٹھ حکمرانوں کے نام خطوط موجود ہیں۔ ان خطوط کے ساتھ حضورؐنے ان بادشاہوں کو اپنے سفیر بھی بھیجے، تاکہ یہ سفیر ان بادشاہوں کو تفصیل سے اسلام کی دعوت دے سکیں۔ اُس زمانے میں ملوکیت کا عام دوردورہ تھا، اور رعایا یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ وہ اپنے بادشاہ کے مرضی کے خلاف کسی مذہب کو قبول کرلیں۔ چنانچہ وہاں کی رعایا تک اسلام کی دعوت پہنچانے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ وہاں کے بادشاہوں کو اس کی طرف متوجہ کیا جائے۔ اگرچہ ان بادشاہوں میں سے کچھ حکمرانوں نے مسلمان سفیروں سے اچھا سلوک کیا، لیکن اکثر بادشاہوں نے حقارت کا رویہ اختیار کیا۔ حضورؐ کی وفات کے بعد صحابہ کرامؓ کے سامنے یہ سوال اٹھا کہ ارد گرد کے ممالک کے عوام کو دین کی دعوت کیسے پہنچائی جائے۔ اس کے لیے یہ ضروری تھا کہ ان ممالک کی بادشاہتوں کو ختم کردیا جائے، تاکہ لوگ اپنی آزادانہ مرضی سے یہ فیصلہ کرسکیں کہ وہ اسلام قبول کرتے ہیں، یا نہیں کرتے۔ 

اس طریقے سے جہاں جہاں بھی مسلمانوں کے قدم پہنچے، وہاں اسلام بھی بہت تیزی کے ساتھ پھیلا۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ لوگوں کو بزور مسلمان بنایا گیا، بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ اِن لوگوں کے سابقہ حکمرانوں اور نئے مسلمان حکمرانوں کے اخلاق اور کردار میں اتنا واضح فرق تھا کہ عوام کے لیے اسلام قبول کرنا خوشی کا باعث بن گیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس پورے دور میں کسی ایک فرد کو بھی جبراً مسلمان نہیں بنایا گیا۔

 

B