HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Dr. Farooq Khan

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

جہاد و قتال ۔ چند اہم مباحث (حصہ دوم)

21: فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِہِمْ خِلاَفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَکَرِہُوْٓا اَنْ یُّجَاہِدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَقَالُوْا لاَ تَنْفِرُوْا فِی الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَہَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا لَّوْ کَانُوْا یَفْقَہُوْنَ(سورۃ توبہ -9آیت81)
’’(غزوۂ تبوک کے موقع پر) جو منافقین پیچھے چھوڑ دیے گئے،وہ رسول اللہ کا ساتھ نہ دینے پر بہت خوش ہوئے اور انھیں گوارا نہ ہوا کہ اپنے مال و جان سے اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں۔ ان منافقین نے (دوسروں سے بھی) کہا کہ ’’اس سخت گرمی میں نہ نکلو۔‘‘ 
(اے نبیؐ،ان سے) کہہ دو کہ دوزخ کی آگ اس سے کہیں زیادہ گرم ہے۔ کاش، وہ (اس حقیقت) کو سمجھتے۔ ‘‘


غزوہ تبوک کے پس منظر میں نازل ہونے والی اس آیت میں جانی اور مالی قربانی دینے والے سب لوگوں کو مجاہدین قرار دیا گیا۔گویا یہاں عمومی جدوجہد کے دوپہلو خاص طور پر نمایاں کر دئے گئے۔ایک اسلام کے لئے مالی قربانی دینا اور دوسرا اسلامی حکومت کی ہدایات کی تحت جنگ کے لئے نکلنا۔

22: وَاِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ اَنْ اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَجَاہِدُوْا مَعَ رَسُوْلِہِ اسْتَاْذَنَکَ اُوْلُوا الطَّوْلِ مِنْہُمْ وَقَالُوْا ذَرْنَا نَکُنْ مَّعَ الْقَاعِدِیْنَ() (سورۃ توبہ-9آیت86)
’’(اے نبیؐ)، جب بھی کوئی سورہ(اس مضمون کی) نازل ہوئی کہ اللہ پر ایمان کا حق ادا کرو، اور اس کے رسولؐ کے ساتھ مل کر جہاد کرو، تو ان میں سے جو لوگ وسائل رکھتے تھے، وہ بھی تمھارے پاس رخصت مانگنے آکھڑے ہوئے اورکہا کہ ہمیں چھوڑ دیجیے تاکہ ہم بیٹھنے والوں کے ساتھ رہیں‘‘۔ 

یہ آیت غزوہ تبوک کے پس منظر میں نازل ہوئی چنانچہ یہاں جہاد کے لفظ کا اطلاق اللہ کے راستے میں جنگ کرنے پر ہوگا۔

23: لٰکِنِ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ جَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ وَاُولٰٓءِکَ لَہُمُ الْخَیْْرَاتُ وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ()(سورۃ توبہ -9آیت88) 
’’البتہ رسولؐ اور جو لوگ اس رسو لؐ کے ساتھ ایمان لے آئے ہیں اور انھوں نے اپنے مال اور جان سے جہاد کیا، انھی کے لیے ساری رحمتیں اوربرکتیں ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔ ان کے لیے اللہ نے ایسے باغ تیار کررکھے ہیں جن میں نہریں بہ رہی ہیں۔ یہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہی عظیم کامیابی ہے‘‘۔ 

یہ آیت غزوہ تبوک کے پس منظر میں نازل ہوئی۔ چنانچہ یہاں جان ومال سے جدوجہد کے معنی میں جنگ کا پہلو غلبہ پاگیا ہے، اگرچہ جدوجہد کا عمومی پہلو بھی موجود ہے۔

24: وَجَاہِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ہُوَ اجْتَبَاکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْم(سورۃ حج-22آیت78)
’’اللہ کی راہ میں جدوجہد کرو، جیسا کہ جدوجہد کرنے کا حق ہے۔ اسی نے تم کو اس جدوجہد کے لیے منتخب کیا ہے۔ اسی اللہ نے دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔(اللہ نے) تمھارے باپ یعنی ابراہیمؑ کی ملت (کو تمھارے لیے پسند فرمایا)‘‘۔

اس آیت کے سیاق وسباق سے یہ بات واضح ہے کہ یہاں جہاد سے مراد دین کے راستے میں عمومی جدوجہد ہے۔

25: وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتّٰی نَعْلَمَ الْمُجَاہِدِیْنَ مِنْکُمْ وَالصَّابِرِیْنَ وَنَبْلُوَ اَخْبَارَ کُمْ() (سورۃمحمد-47آیت31)
’’اے نبیؐ کے ساتھیو، ہم لازماً تم لوگوں کو آزمایش میں ڈالیں گے تاکہ ہم دیکھ لیں کہ تم میں مجاہد اور ثابت قدم کون ہیں، اس طرح ہم تمھارے حالات کی جانچ کریں گے۔‘‘

اس آیت سے قبل منافقین کا ذکر ہے کہ ان کا مطالبہ تھا کہ قتال کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا۔اور اب جب حکم دے دیا گیا تو یہ جنگ میں شرکت کرنے سے جان چھڑا رہے ہیں۔اس لئے اللہ نے یہ اعلان کردیا کہ وہ تمام مسلمانوں کو کئی آزمائشوں میں لازماً مبتلا کرے گا ،تاکہ کھرے کھوٹے کی پہچان ہوجائے۔اس پس منظر کے باعث یہاں مجاہد کے لفظ سے مراد ایسا شخص ہوگا جو اللہ اور اس کے رسول کے لئے قتال کرے۔

26: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُولٰٓءِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ() (سورۃ الحجرات-15آیت49)
’’حقیقت میں تو مومن بس وہی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر شک میں نہیں پڑے، اور اپنے مال اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جدوجہد کی۔ یہی سچے لوگ ہیں۔‘‘ 

سورۃ الحجرات کی آیات 18-14میں اعراب یعنی مدینہ کے اردگرد کے بعض دیہاتیوں کے ایمان کی حقیقت زیر بحث ہے کہ یہ لوگ دل سے ایمان نہیں لائے بلکہ انہوں نے محض اطاعت قبول کرلی ہے۔ان کے مقابلے میں یہاں مسلمانوں کا یہ وصف بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان تو وہ ہوتا ہے جو اپنا سب کچھ (جان ومال)اللہ کی راہ میں لگادیتا ہے۔چنانچہ یہاں جہاد سے مراد اسلام کے لئے ہر طرح سے جدوجہد ہے۔

27: یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآءَ کُمْ مِّنَ الْحَقِّ یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ رَ بِّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَاْءَ مَرْضَاتِیْ تُسِرُّوْنَ اِلَیْْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَآ اَخْفَیْْتُمْ وَمَآ اَعْلَنْتُمْ وَمَنْ یَّفْعَلْہُ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ()(سورۃ ممتحنہ-60آیت1)
’’اے اہلِ ایمان،میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔تم اُن کودوستی کے پیغام بھیجتے ہو،اور اُن کا حال یہ ہے کہ انھوں نے اُس حق کا انکار کیا جو تمھارے پاس آیا۔ وہ رسولؐ کو اور تم کو صرف اِس قصور پر جلاوطن کرتے ہیں کہ تم اللہ، اپنے پالنے والے پر ایمان لائے۔ اگر تم میری راہ میں جدوجہدکے لیے اور میری رضاجوئی کی خاطر نکلے ہوتو (یہ کیسی عجیب بات ہے کہ) تم اُن کو چھپا کر دوستانہ پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو سامنے کرتے ہو، ہر چیز کو میں خوب جانتا ہوں۔ تم میں سے جو شخص بھی ایسا کرے، وہ راہِ راست سے بھٹک گیا‘‘۔ 

ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر کسی ملک نے ہماری ریاست یا ہمارے دین کو اپنادشمن قرار دیا ہے یاان کے اورہمارے درمیان دشمنی ہے تو ریاست کے باشندوں کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ انفرادی طور پر اس دوسرے ملک یا اس کے باشندوں سے دوستی یا رازدارانہ تعلقات بنائیں۔

اس آیت کے بعد جو آیات نازل ہوئی ہیں،ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں جہاد کے لفظ میں عام جدوجہد اور جنگ دونوں شامل ہیں۔

28: یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُم مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ() تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ذٰلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ() (سورۃ صف -61آیات11,10)
’’اے اہلِ ایمان، کیا میں تمھیں ایک ایسی تجارت کے بارے میں بتاؤں جو تمھیں ایک درد ناک سزا سے نجات بخشے۔ (وہ تجارت یہ ہے کہ) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان کے ذریعے سے جدوجہد کرو۔ ‘‘

اس آیت سے قبل قرآن مجید نے مشرکین پر واضح کردیا کہ سرزمین عرب پر حضورﷺکا غلبہ ہوکر رہے گا، چاہے انہیں یہ بات کتنی ہی ناگوار گزرے۔اسی پس منظر میں مسلمانوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ وہ اپنے جان ومال سے اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں تاکہ وہ مشرکین اور منافقین کی ہر تدبیر کو ناکام بنا سکیں۔چنانچہ اس پس منظر کے باعث یہاں جہاد سے مراد مشرکین اور منافقین کے توڑ کے لئے ہر طرح کی جدوجہد مراد ہوگی، حتیٰ کہ ضرورت پڑنے پر قتال سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔

29: یٰٓاَ یُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْْہِمْ وَمَاْوَاہُمْ جَہَنَّمُ وَبِءْسَ الْمَصِیْرُ()(سورۃ تحریم-66آیت9)
’’اے نبیؐ، منکرینِ حق اور منافقین سے جہاد کرو اور اُن پر سخت ہوجاؤ۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ کیا ہی بُرا ٹھکانا ہے‘‘۔ 

یہاں جہاد سے مراد کفار ومنافقین سے بحث مباحثے کے ذریعے اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنا اور ان کی سازشوں کا توڑ کرنا ہے۔واضح رہے کہ حضورؐ نے منافقین کے خلاف کبھی مسلح جنگ نہیں کی۔

درج بالا صفحات میں ہم نے اپنی بساط بھر وہ تمام آیات جمع کر دی ہیں جن میں جہاد کا ذکر ہوا ہے۔اس بحث سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ لفظ جہاد کو مسلح جنگ کے لئے خاص کرنا اور پھر ہر اس آیت کو دلیل کے طور پر پیش کرنا،جس میں لفظ جہاد آیا ہے،صحیح نہیں ہے۔درج بالا بحث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان انتیس آیات میں سے چودہ آیات میں جہاد کے لفظ میں جنگ کا پہلو واضح طور پر موجود ہے۔ بقیہ آیات میں جہاد سے مراد اللہ کے راستے میں ہر طرح کی جدوجہد ہے۔ جب کہ مکی دور کی چارآیات میں جہاد سے مراد خالصتاً پرامن جدوجہد ہے۔جہاد کے معنی اصلاً ’’اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنے‘‘کے ہیں۔سیاق وسباق (یعنی context)کی وجہ سے کبھی یہ لفظ اپنے عمومی مفہوم پر دلالت کرتا ہے، اور کبھی جدوجہد کے کسی خاص پہلو تک محدود ہوجاتا ہے۔جیسا کہ ہم نے درج بالا آیات میں دیکھا کہ قتال ،مالی قربانی ،سازشوں کا توڑ کرناوغیرہ جدوجہد ہی کی مختلف شکلیں ہیں اور سیاق وسباق کی وجہ سے آیات میں جدوجہد کا ان میں سے کوئی خاص پہلو غلبہ پاگیا ہے۔ 

 

احادیث میں جہاد کا تذکرہ 

احادیث میں بھی جہاد کا لفظ کبھی تو عملاً ہر نیک کام کے لیے استعمال ہوا ہے، اور کبھی یہ مسلمان حکومت کی طرف سے اعلان کردہ جنگ میں شرکت کے لیے استعمال ہوا ہے۔مثلاً حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ہر قسم کے حکمران کی معیت میں تم پر جہاد فرض ہے۔ خواہ وہ نیک ہو یا بد۔ اور اگرچہ وہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہو۔ (ابوداؤد۔کتاب الجہاد)

اسی طرح حضورؐ نے ارشاد فرمایا: 

اَلْمُجَاہِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسِہٖ فِیْ طَاعَۃِ اللّٰہِ 
’’مجاہد وہ ہے جس نے اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کیا‘‘۔ 

اسی طرح ایک اور روایت میں حضورؐ نے والدین کی خدمت کو بھی جہاد قرار دیا۔ روایت ہے کہ ایک شخص حضورؐ کے پاس آیا اور جہاد میں جانے کے لیے اجازت مانگی۔ حضورؐ نے فرمایا: کیا تمہارے والدین ہیں؟۔ اُس نے جواب دیا: ہاں۔ اس پر حضورؐ نے اُسے فرمایا: جاؤ اور اُن دونوں کی خدمت کرو۔ یہی تمہارا جہاد ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر3004)


قتال کے معنی

قرآن مجید میں مسلح جنگ کے لئے لفظ’’قتال‘‘استعمال ہوا ہے۔ہر مسلح جنگ خواہ وہ کسی بھی مقصد کے لئے لڑی جائے،قتال کہلاتی ہے، اس لئے کہ اس میں خون بہتا ہے اور لوگ قتل ہوتے ہیں۔قتال کا ذکر قرآن مجید میں چون(54)آیات میں آیا ہے۔یہ تمام آیات مدنی ہیں۔ان کی فہرست حسب ذیل ہے:

بقرہ 2:آیات: 253.251.246.244.217.216.193.191.190.154

آل عمران3:آیات: 195.169.167.121.111.108.13

نساء 4:آیات: 91.90.89.84.77.76.75.74

مائدہ 5:آیت: 70

انفال 8:آیات: 65.39.17.16

توبہ: 9آیات: 123.111.36.29.14.13.12

حج22: آیات: 58.39 احزاب33:آیات: 61.26.25

محمد47: آیات: 20.4 فتح48:آیات: 22.16

حجرات49: آیت9 حدید58: آیت10

حشر59: آیت11 ممتحنہ60: آیت9

صف61: آیت4 منافقون63: آیت4

مزمل73:آیت20

قرآن مجید نے قتال کی تین قسموں کا ذکر کیا ہے۔ایک وہ جنگ جو اللہ کے احکامات کے تحت صرف اس کی رضا جوئی کے لئے لڑی جائے ، اسے ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘کہا گیا ہے۔دوسری وہ جنگ جو دوفریقوں کے درمیان کسی بھی وجہ سے لڑی جائے،اسے محض’’قتال‘‘کہا گیا ہے۔تیسری وہ جنگ جو کسی دشمن ملک یا گروہ کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی کے لئے لڑی جائے،اسے ’’قتال فی سبیل الطاغوت‘‘کہا گیا ہے۔

ارشاد ہے:

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْٓا اَوْلِیَآءَ الشَّیْْطَانِ اِنَّ کَیْْدَ الشَّیْْطَانِ کَانَ ضَعِیْفًا()(سورۃ نساء -4آیت76)
’’مومنین(ضرورت پڑنے پر)اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں،ا ور انکار کرنے والے (اسلام کی دشمنی اور)طاغوت کی حمایت میں لڑتے ہیں۔پس شیطان کے حامیوں سے لڑو۔شیطان کی چالیں بالکل بے بنیاد ہیں‘‘۔

اسی طرح عام لڑائی کے متعلق ارشاد ہے:

وَاِنْ طَآءِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْْنَہُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓءَ اِلآی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِنْ فَآءَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَیْْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ()(سورۃ الحجرات-49آیت9)
’’اے اہلِ ایمان، اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اُن کے درمیان مصالحت کراؤ۔ پھر اگر اُن میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے، تو زیادتی کرنے والے سے لڑو، یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلے کی طرف رجوع کرے۔ پھر اگر وہ رجوع کرلے تو اُن کے درمیان عدل کے ساتھ مصالحت کرادو، اور ٹھیک ٹھیک انصاف کرو۔بے شک، اللہ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔‘‘ 

قتال یعنی مسلح جنگ سے متعلق اسلامی احکام پر تفصیلی بحث بعد میں کی جائے گی۔


صبر کے معنی:

صبر وہ لفظ ہے جس کے معنی ومفہوم کو آج مسلمان تقریباً فراموش کر بیٹھے ہیں۔بلکہ یہ لفظ مصلحین،علماء اور مذہبی سیاسی رہنماوؤں کی تقریروں اور تحریروں سے بالکل غائب ہو کر رہ گیا ہے۔قرآن مجید میں ایک سو تین(103)آیات میں اس لفظ اور اس کے متعلقات کو استعمال کیا گیا ہے۔ان تمام مقامات کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صبر دراصل ایک ذہنیت اور ذہنی روئے کا نام ہے جس کا ایک پہلو فرد سے متعلق ہے اور ایک پہلو قوم سے متعلق ہے۔

جب ایک فردکے لئے حالات ناسازگار ہوں تو دل چھوٹا نہ کیا جائے،اس بات پر یقین رکھا جائے کہ پروردگار تمام حالات کو دیکھ رہا ہے اور وہ جب چاہے گا حالات بدل دے گا۔چنانچہ ٹھنڈے دل ودماغ سے کام لیا جائے۔مایوسی اور گھبراہٹ سے بچا جائے۔حالات کا اچھی طرح جائزہ لے کر،تدبیر کے ساتھ، بہترین پُر امن حکمت عملی بنا کر اس پر عمل کیا جائے۔اور اس عمل پر ثابت قدم رہاجائے۔

اسی طرح جب ایک مسلمان قوم وملک کے لئے حالات ناسازگار ہوں،مشکلات زیادہ ہوں اور ہر طرف سے خطرے امڈے چلے آرہے ہوں، تو صبر کا تقاضا ہے کہ ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ انتظار کیا جائے ،مستقبل کے لئے منصوبہ بندی اور تیاری کی جائے،اشتعال ،فوری ردعمل اورالٹے سیدھے اقدامات سے گریز کیا جائے۔ پوری پوری دنیوی تدبیر کی جائے۔یہ طرز عمل اختیار کیا جائے کہ ہمیں بہترین دنیوی حکمت عملی کے مطابق کام کرنا ہے اور اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔تیاری کے اس مرحلے میں ثابت قدمی ہی صبر ہے۔

اس کے برعکس ایک فرد یا ایک قوم کی طرف سے فوری ردعمل،جلد بازی، معروضی تجزئے کے فقدان،تیاری کے بغیر اقدام، اور حکمت عملی میں عدم استقلال کو بے صبری کہا جائے گا۔

پچھلے دوسو برس کے دوران میں مسلمان قوم کی سب سے بڑی کمزوری اور خامی بے صبری ہی رہی ہے اور آج بھی اس امت کے رہنما اس کو بے صبری ہی کا سبق پڑھا رہے ہیں۔ بلکہ ان کی نظر میں صبر کی تلقین کرنے والے دراصل بزدل ہیں۔

تمام پیغمبروں اور ان کے ساتھیوں کی داستان دراصل صبر ہی کی داستان ہے۔وہ اپنے کام میں لگے رہے۔انہوں نے نتائج کے حصول کے لئے جلدی نہیں کی۔حضرت نوحؑ اور ان کے متبعین سینکڑوں برس تک اپنی دعوت دیتے رہے، اور مخالفین کے ظلم سہتے رہے، مگر انہوں نے جوابی اقدام کبھی نہیں کیا۔صرف ایک پیغمبر حضرت یونسؑ سے جانبِ حق جب بے صبری کا ظہور ہوا تو ان کی داستان قرآن مجید نے ہمیشہ کے لئے محفوظ کردی۔ارشاد ہے:

فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ اِذْ نَادٰی وَہُوَ مَکْظُوْمٌ() لَوْلَآ اَنْ تَدَارَ کَہٗ نِعْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّہِ لَنُبِذَ بِالْعَرَآءِ وَہُوَ مَذْمُوْمٌ(سورۃ قلم -68آیات49,48)
’’ اس لیے تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کرتے رہو اور اُس مچھلی والے (یونسؑ ) کی طرح نہ ہو جاؤ، جب اُس نے (مچھلی کے پیٹ میں) پکارا اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا۔ اگر اُس کے پروردگار کی مہربانی اُس کے شاملِ حال نہ ہوجاتی تو (اپنی اس جلدی کے نتیجے میں) وہ اُسی چٹیل میدان میں اِس طرح پھینک دیا جاتا کہ وہ لائقِ مذمت ہوتا‘‘۔

تمام پیغمبروں کی طرح حضورؐ نے بھی ہمیشہ صبر ہی سے کام لیا۔مکی دور کے تیرہ سال میں آپؐ نے اپنے اوپر اور اپنے صحابہؓ کے اوپر کئے جانے والے کسی ظلم کا جواب نہیں دیا۔بلکہ ہر زیادتی کے مقابلے میں آپؐ اپنے ساتھیوں کو صبر واستقامت ہی کی تلقین کرتے رہے۔اگرچہ اس وقت یعنی مکی دور میں بھی مسلمانوں کے اندر ایمانی قوت اور صبر کا مادہ اتنا زیادہ تھا کہ خود قرآن مجید کے مطابق مسلمان اپنے سے دس گنا بڑے لشکر کا مقابلہ کر سکتے تھے۔دورِ مدینہ میں جب ایک اسلامی ریاست وجود میں آگئی،تب کہیں جاکر مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی۔

جنگ بدر میں دشمن کی تعداد اور اسلحہ مسلمانوں سے تین گنا زیادہ تھا۔لیکن مسلمانوں نے حضورؐ کی سرکردگی میں ٹھنڈے دل ودماغ سے جنگ کی منصوبہ بندی کی۔جوش کے مقابلے میں ہوش سے کام لیا اوربہترین جنگی حکمت عملی اپنائی۔اس کے برعکس دشمن کے ہاں نااتفاقی تھی۔وہ ایک لیڈر تلے متحد نہیں تھے۔ان کے ہاں جنگ کے مخالفین بھی تھے۔ان کے اقدامات بے ترتیبی اور جلد بازی کا مظہر تھے۔چنانچہ اللہ کی رحمت سے مسلمان فتح یاب رہے۔

جنگ احد میں مسلمان نسبتاً بہتر پوزیشن میں تھے۔حضورؐ نے بہترین منصوبہ بندی کی تھی۔اسی لئے ابتداء میں مسلمانوں کو فتح ملی۔ لیکن قرآن مجید کے الفاظ میں جب کچھ مسلمانوں نے بے صبری دکھائی ،آپس میں اختلاف کرنے لگے، اور محض مال غنیمت کی محبت کی وجہ سے انہوں نے اپنے کمانڈر کے حکم کے خلاف ورزی تک کرڈالی ، تو اُن میں پھوٹ پڑ گئی۔یہی وجہ ہے کہ پروردگار نے ان کی فتح کو شکست میں تبدیل کر دیا۔(سورۃ آل عمران -3آیات 144تا152)

اس کے بعد جنگ خندق(غزوہ احزاب) میں دشمن کے لشکر کی تعداد دس ہزارسے زیادہ تھی۔وہ متحد تھے اور ان کے پاس اسلحے کی تعداد مسلمانوں سے بہت زیادہ تھی۔چنانچہ حضورؐ نے دفاعی حکمت عملی اپنائی۔ اگرچہ اُس وقت نوجوان پرجوش صحابہ کرامؓ کا اصرار یہی تھا کہ باہر نکل کر مقابلہ کیا جائے، مگر ہوش مندی کا تقاضا یہ تھا کہ صبر کیا جائے،جذبات کو قابو میں رکھا جائے،مسلمانوں کو بچایا جائے اور یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے دوبدو جنگ سے گریز اور اجتناب کیا جائے۔چنانچہ حضورؐ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے پر جدید ترین حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے مدینے کے گرد خندق کھود ی اور یوں یہ جنگ نہ ہونے دی۔

چھ ہجری میں قریشِ مکہ نے انتہائی زیاتی سے کام لیتے ہوئے مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روک دیا۔تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے صلح کی پیش کش بھی کر دی۔صلح کی شرائط بظاہر مسلمانوں کے بالکل خلاف تھیں،خصوصاً جس شرط میں کہا گیا تھا کہ اگر مسلمانوں میں سے کوئی اپنے دین کو چھوڑ کر دشمن سے جاملے،تو اُس کو واپس نہیں کیا جائے گا، لیکن اگر مشرکین میں سے کوئی شخص اسلام قبول کرکے مدینہ جائے گا،تو مسلمانوں پر اس فردکی واپسی لازم ہوگی۔حضورؐ نے دشمن کی اِن ناجائز شرائط پر اُن سے صلح کرلی، اس لئے کہ حضورؐ جانتے تھے کہ اس صلح کے نتیجے میں اسلام کی دعوت کا راستہ کھل جائے گا۔گویا حضورؐ نے دشمن سے امن کا وقفہ خرید لیا۔یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے بظاہر دب کر کی جانے والی اس صلح کو کھلی فتح اور بڑی کامیابی قرار دیا۔

جب دشمن کی بدعہدی کے نتیجے میں صلح حدیبیہ ختم ہو گئی تو حضورؐ نے انتہائی صبر کے ساتھ تیاری کا مرحلہ جاری رکھا۔سفارت کاری کے ذریعے دشمن کو بالکل تنہا کر دیا ۔پھر ایک عظیم فوج لے کر مکہ کو پُرامن طور پر فتح کر لیا اور سب سے بڑی بات یہ کہ نہ صرف تمام دشمنوں کو معاف کر دیا بلکہ انہی کو وہاں کی قیادت بھی سونپ دی۔غور کیا جائے تو ان واقعات میں موجودہ دور کے مسلمانوں کے لئے صبر وحکمت کا عظیم سبق پوشیدہ ہے۔

اس کے فوراً بعد جب جنگِ حنین کا معرکہ پیش آیا تو کچھ مسلمانوں کے دل میں تکبر پیدا ہوا کہ آج ہمیں کون ہرا سکتا ہے۔چنانچہ پروردگار نے ان کے غرور پر اظہار نارا ضی کرتے ہوئے انہیں ابتدائی شکست سے دوچار کر دیا۔

ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئیے کہ جب پروردگار دنیوی تدبیر اور صبر کے معاملے میں صحابہ کرامؓ کی کوتاہی کو بھی برداشت نہیں کرتا توپھربھلا وہ ہماری کوتاہی کو کیسے برداشت کرے گا۔چنانچہ آج امت مسلمہ کی سب سے بڑی ضرورت صبر ہے۔

B