یہاں تک جو کچھ عرض کیا گیا ہے، وہ صدقات و زکوٰۃ کی معروف اقسام کو پیش نظر رکھ کر عرض کیا گیا ہے، لیکن خاص قربانی کی کھالوں سے متعلق ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے، وہ یہ کہ کیا ان کی نوعیت بعینہٖ وہی ہے جو عام صدقات و زکوٰۃ کی ہے یا ان سے کچھ مختلف ہے؟ بعض واضح دلائل کی بنا پر اس عاجز کا رجحان یہ ہے کہ ان کی نوعیت صدقات و زکوٰۃ کی معروف اقسام سے بالکل مختلف ہے۔
اس اختلاف کی ایک واضح دلیل تو یہ ہے کہ زکوٰۃ کی عام طو رپر جو تعریف کی جاتی ہے، اس کا کوئی جز بھی اس کے اوپر صادق نہیں آتا۔
زکوٰۃ کی تعریف عام طور پر یہ کی جاتی ہے:
’’نصاب مقررہ کا کوئی حصہ کسی فقیر یا اس طرح کے کسی ایسے آدمی کو دینا جس کو دیے جانے میں کوئی شرعی مانع موجود نہ ہو اور یہ دینا اس طرح ہو کہ عطا کردہ مال سے دینے والے کا کوئی مفاد وابستہ نہ رہے۔‘‘
اب آئیے دیکھیے کہ اس کا کوئی جز بھی قربانی کی کھالوں پر صادق آتا ہے؟
قربانی کی کھالیں نصاب کا کوئی جز نہیں ہیں۔ ان کو لازماًکسی فقیر ہی کو دینا ضروری نہیں ہے، آپ خود بھی اپنی قربانی کی کھال اپنے کسی ذاتی مصرف میں لا سکتے ہیں، اپنے کسی دوست کو دے سکتے ہیں، کسی غریب اور محتاج کو دے سکتے ہیں، بیچ کر اس کی قیمت صدقہ کر سکتے ہیں، بس اگر ممانعت ہے تو اس بات کی کہ بیچ کر اس کے دام کھرے کرنے کی فکر نہ کیجیے۔
اس کے دینے میں کسی ہاشمی یا غیر ہاشمی کے امتیاز کی کوئی وجہ بھی بظاہر نظر نہیں آتی، کیونکہ اس کے اوپر ’’لوگوں کے مال کا میل‘‘ ہونے کی تعبیر کسی طرح بھی صادق نہیں آتی۔ دینے والے کا اپنا مفاد بھی اس سے منقطع ہونے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ اگر کوئی شخص اپنی قربانی کی کھال کی جانماز بنا کر محلہ کی مسجد پر وقف کر دے تو اس پر وہ خود بھی نماز پڑھ سکتا ہے اور دوسرے مسلمان بھی اس پر نماز پڑھ سکتے ہیں۔
اب میں مختصراً قرآن و حدیث اور فقہ کی کتابوں سے مذکورہ باتوں کی دلیلیں نقل کرتا ہوں۔
جہاں تک قربانی کے گوشت کا تعلق ہے، اس کا ذکر تو خود قرآن ہی میں موجود ہے کہ اس کو کھاؤ، کھلاؤ اور غریبوں کو دو:
فَکُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْبَآءِسَ الْفَقِیْرَ. (الحج۲۲:۲۸)
’’پھر اس میں سے خود بھی کھاؤ اور مصیبت زدہ فقیر کو بھی کھلاؤ۔‘‘
اس آیت میں خصوصیت کے ساتھ یہ نکتہ ملحوظ رکھنے کا ہے کہ اس میں فقیر کو دینے کا ذکر ’اٰتُوْا‘ یا ’تَصَدَّقُوْا‘ کے الفاظ کے ساتھ نہیںآیا ہے ،بلکہ ’اَطْعِمُوْا‘ کے لفظ کے ساتھ آیا ہے۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ فرض کر لیا جائے کہ’ ایتاء‘ اور ’تصدق‘ کے الفاظ تملیک شخصی کے مفہوم کے لیے آتے ہیں، جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے تو کیا ’اطعام‘کا لفظ بھی تملیک شخصی کے مفہوم کا حامل ہے؟ اگر ایک شخص اپنا قربانی کا گوشت پکا کر بہت سے غریبوں کو بلا کر ایک دعوت عام کی صورت میں کھلا دے تو کیا یہ اطعام نہ ہو گا؟ حالانکہ ’’فتح القدیر‘‘ کی تصریح کے مطابق اس صورت میں تملیک نہیں پائی گئی جس کو صدقات و زکوٰۃ کی شرط لازم قرار دیا گیا ہے۔
جو حکم قربانی کے گوشت کا ہے، احادیث اور فقہا کی تصریحات سے ثابت ہے کہ بعینہٖ وہی حکم قربانی کی کھالوں کا بھی ہے، یعنی ایک شخص اپنی قربانی کی کھال خود اپنے کسی ذاتی مصرف میں بھی لا سکتا ہے، کسی کو ہبہ بھی کر سکتا ہے اور کسی محتاج اور غریب کو صدقہ بھی کر سکتا ہے۔ پس یہ بات ناجائز ہے کہ خسیسوں اور لئیموں کی طرح اس کو سرمایہ بنانے کی کوشش کرے۔
حضرت قتادہ بن نعمان سے روایت ہے کہ:
ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قام فقال انی کنت امرتکم ان لا تاکلوا لحوم الا وضاحی فوق ثلاثۃ ایام لیسعکم. وانی احلہ لکم فکلوا ما شئتم ولا تبیعوا لحوم الھدی والاضاحی وکلوا وتصدقوا و استمتعوا بجلودھا ولا تبیعوھا.(نیل الاوطار۵/۱۳۷)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپ نے خطبہ دیا کہ میں نے تم کو یہ حکم دیا تھا کہ قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ نہ رکھ چھوڑا کرو، یہ حکم اس لیے دیا تھا کہ وہ تم سب کے لیے کافی ہو سکے۔ اب میں اس کو تمھارے لیے جائز کرتا ہوں۔ پس تم اس کو جس طرح چاہو برتو، البتہ نذر یا قربانی کا گوشت بیچو نہیں۔ کھاؤ، خیرات کرو اور ان کی کھالوں سے فائدہ اٹھاؤ، البتہ ان کو بیچو نہیں۔‘‘
اس حدیث سے واضح ہے کہ قربانی کے گوشت اور اس کی کھال کے مصرف میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص چاہتا ہے تو اس کو اپنے کسی ذاتی مصرف میں بھی لا سکتا ہے، لیکن اس کو سرمایہ بنانے کا ذریعہ نہ بنائے ،بلکہ اس کو صدقہ کر دے۔
فقہا کی تصریحات بھی اس کے متعلق یہی ہیں۔
امام شوکانی مذکورہ حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
وفیہ ایضا الاذن بالانتفاع بھا بغیر البیع وقد روی عن محمد بن الحسن ان لہ ان یشتری
’’اور اس حدیث سے بیچے بغیر ان کھالوں سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نکلتی ہے۔ محمد بن حسن سے مروی ہے کہ اس کھال کے
بمسکھا غربا لا او غیرھا من آلۃ البیت لا شیئا من الماکول وقال الثوری لا یبیعہ ولکن یجعلہ سقا و شنا فی البیت. (نیل الاوطار۵/ ۱۳۸)
بدلہ میں آدمی گھر کے لیے چھلنی یا اس طرح کی گھریلو چیزوں میں سے کوئی چیز حاصل کر سکتا ہے، البتہ کھانے پینے کی کوئی چیز اس کے بدلہ میں نہ حاصل کرے۔ امام ثوری کہتے ہیں کہ اس کو بیچے نہیں، گھر کے لیے ڈول یا مشکیزہ بنا لے۔‘‘
حنفی فقہا کی تصریحات اس بارہ میں یہ ہیں:
ولما جاز الاکل منھا دل علی جواز الانتفاع بجلودھا من غیر جھۃ البیع ولذالک قال اصحابنا یجوز الانتفاع بجلد الاضحیۃ وروی ذالک عن عمر وابن عباس وعائشۃ وقال الشعبی کان مسروق یتخذ مسک اضحیتہ مصلی ویصلی علیہ. (احکام القرآن، ابوبکر جصاص ۳/ ۲۹۳)
’’جب قربانی کا گوشت کھانا جائز ہوا تو یہ بات اس کی دلیل ہے کہ اس کی کھالوں سے آدمی فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے، بشرطیکہ اس سے سرمایہ بنانے کی کوشش نہ کرے۔ اسی وجہ سے ہمارے علما کا مذہب یہ ہے کہ قربانی کی کھال سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ یہی بات حضرت عمر، حضرت ابن عباس، اور حضرت عائشہ سے بھی مروی ہے۔ شعبی کہتے ہیں کہ مسروق اپنی قربانی کی کھال کی جاے نماز بنا لیا کرتے اور اس پر نماز پڑھا کرتے۔‘‘
غور فرمائیے کہ زکوٰۃ و صدقات کی تمام معروف اقسام میں سے ہے کوئی قسم ایسی جس میں آدمی کے لیے یہ سارے تصرفات جائز ہوں کہ وہ اس سے خود بھی فائدہ اٹھا سکے اور بلا امتیاز امیر و غریب، سیدوغیر سید، کسی دوسرے کو بھی دے سکے اور اس کو صدقہ بھی کر سکے؟ اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو آخر یہ بات کس طرح صحیح ہو سکتی ہے کہ وہ ساری شرطیں جو صدقات واجبہ کے لیے مقرر ہیں، وہ اس پر بھی لا کر چسپاں کر دی جائیں؟ ہم نے تھوڑی دیر کے لیے فرض کیا کہ تملیک ادائیگی زکوٰۃ کے لیے رکن کی حیثیت رکھتی ہے ،لیکن کیا قربانی کی کھال زکوٰۃ اور صدقہ ہے کہ اس پر سارے احکام صدقہ اور زکوٰۃ کے عائد کیے جائیں؟
میں نے تو مذکورہ بالا احادیث و اقوال کی روشنی میں جو کچھ سمجھا ہے، وہ یہ ہے کہ قربانی کے گوشت اور اس کی کھالوں کا معاملہ صدقات و زکوٰۃ کے سلسلہ سے تعلق رکھنے کے بجاے مکارم اخلاق، فیاضی اور احسان و تبرع سے تعلق رکھتا ہے، آدمی ان کو کھائے، کھلائے، خود برتے اور دوسروں کو ہدیے، تحفے اور صدقے کے طور پر دے۔ بس ان کو سینت کر رکھنے یا بیچ کر سرمایہ بنانے کی فکر نہ کرے۔ غربا او رمحتاجوں کو اس میں سے پوری فیاضی کے ساتھ دے، بلکہ فضیلت یہی ہے کہ اگر خود ضرورت محسوس نہیں کرتا تو سب کچھ صدقہ کردے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے واضح ہوتا ہے:
عن علی ابن ابی طالب قال امرنی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان اقوم علٰی بدنہ وان اتصدق بلحومھا وجلودھا واجلتھا. (سنن النسائی الکبریٰ،رقم۴۱۴۵)
’’حضرت علی ابن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ آپ کے قربانی کے اونٹوں کی قربانی کراؤں اور ان کے گوشت، ان کی کھالیں، یہاں تک کہ ان کے جھول سب صدقہ کر دوں۔‘‘
اس کی نوعیت عام صدقات و زکوٰۃ کی نہیں ہے کہ آدمی خود کسی نوعیت سے بھی ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا یا ان کے اندر اس کا تصرف مخصوص قواعد و ضوابط کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ وہ بلاشبہ اس بات کا حق رکھتا ہے کہ اگر کسی انجمن یا ادارہ کی خدمات کو غربا کے لیے مفید پا رہا ہے تو اس کو بے تکلف دے سکتا ہے۔ اس میں کسی تملیک کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔
آخر میں یہ گزارش ہے کہ یہ جو کچھ میں نے عرض کیا ہے، اپنے علم کی حد تک، میں نے صحیح دلائل سے صحیح نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن میں یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ یہ سب کچھ حرف حرف ٹھیک ہی ہے۔ اس وجہ سے میں یہ ذمہ داری کے خلاف سمجھتا ہوں کہ اس کو ایک حتمی اور قطعی راے کی حیثیت سے پیش کروں۔ یا اپنے منصب سے متجاوز ہو کر اس کو فتویٰ کی حیثیت دوں۔ بالخصوص جبکہ اس کا تعلق ایک ایسے مسئلہ سے ہے جس میں بعض قابل اعتماد لوگوں نے اس سے مختلف راے قائم کی ہے جو میں نے قائم کی ہے۔ تاہم چونکہ میں اپنی راے کو دلائل سے اپنے خیال میں مضبوط پا رہا ہوں، اس وجہ سے اس میں کوئی قباحت نہیں محسوس کرتا کہ اس کو فکر و نظر کے لیے اہل علم کے سامنے پیش کروں، ممکن ہے اس سے ایک اہم دینی مسئلہ پر غور کرنے کے لیے کچھ نئی راہیں کھلیں۔ پس جو اصحاب علمی دلائل کے ساتھ میری راے کی کمزوریاں واضح کریں گے، میں ان کی رہنمائی کا خیر مقدم کروں گا اور ان کی ہر قوی بات شکریہ اور کشادہ دلی کے ساتھ قبول کروں گا۔
اللّٰھم ارنا الحق حقًا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ۔