اگر مذکورہ تینوں باتیں صحیح مان لی جائیں، یعنی:
ایک یہ کہ ادائیگی زکوٰۃ کے لیے تملیک کوئی ضروری شرط نہیں ہے۔ اس کے حق میں کوئی نص موجود نہیں ہے۔ جو لوگ تملیک کے رکن یا شرط ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ اپنے دعویٰ کے ثبوت میں جو کچھ پیش کرتے ہیں، اس کی حیثیت ایک استنباط سے زیادہ نہیں ہے۔ اور محض ایک استنباط اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ اس کی بنا پر تملیک کو زکوٰۃ کا رکن قرار دیا جائے۔
دوسری یہ کہ ایک جگہ کی زکوٰۃ دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہے۔ ایک اسلامی حکومت اس بات کی پوری طرح مجاز ہے کہ وہ چاہے تو ہر جگہ کی زکوٰۃ وہیں کے مقامی غربا پر صرف کر دے، چاہے تو کسی خاص علاقہ کی زیادہ شدید ضرورت کی بنا پر وہاں منتقل کر دے، چاہے تو ہر علاقہ کی زکوٰۃ میں سے مرکز کاایک حصہ متعین کر دے اور اس کو خاص اپنے اہتمام میں صرف کرے۔ اور اگر چاہے تو پورے ملک کی زکوٰۃ اپنے اہتمام میں لے کر غربا کی بہبود کی کسی خاص اسکیم پر خرچ کرے۔
تیسری یہ کہ ایک اسلامی حکومت کی عدم موجودگی کی حالت میں مسلمانوں کے لیے صحیح صورت زکوٰۃ کے جمع کرنے اور خرچ کرنے کی یہ ہے کہ وہ اپنے اندر اس کے لیے کوئی اجتماعی نظم قائم کرنے کی کوشش کریں۔ اگر اس طرح کا کوئی ایک ہی اجتماعی نظم قائم نہ ہو سکے تو پھر ادنیٰ درجہ میں ان کے لیے اسلام کے مزاج سے اور اس پالیسی سے، جو اس نے زکوٰۃ کی جمع و تقسیم کے بارہ میں پسند کی ہے، قریب یہ بات ہے کہ ان کے مختلف طبقات اور جماعتیں جن اسلامی ادارات پر اعتماد کرتے ہیں، انھی کو وہ زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کا ذریعہ بنائیں تاکہ ممکن حد تک زکوٰۃ کی افادیت اور غربا کی بہبود کو ملحوظ رکھا جا سکے۔ غرباے مسلمین کی حقیقی ولی اسلامی حکومت کی عدم موجودگی میں انھی ادارات کو ان کی ولایت حاصل ہے۔ اور انھی کو یہ حق ہے کہ جب تک کوئی بہتر نظم وجود میں نہ آجائے، یہ غربا کے لیے زکوٰۃ جمع کریں اور اسے غربا کے مصالح میں صرف کریں۔
اگر یہ تینوں باتیں اہل علم اور اہل دین کو اپیل کرتی ہیں اور ان کے حق میں جو دلیلیں اوپر بیان ہوئی ہیں، وہ کچھ جان دار اور وزنی معلوم ہوتی ہیں تو پھر زکوٰۃ کے مصارف پر ایک وسیع زاویۂ نگاہ سے غور کرنا پڑے گا اور میں چاہتا ہوں کہ اپنا نقطۂ نظر یہاں اہل علم کے سامنے رکھ دوں تاکہ وہ اس پر غور کر سکیں۔ قرآن مجید میں، جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے، زکوٰۃ کے مصارف کی تعیین سورۂ توبہ کی اس آیت سے ہوتی ہے:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ.(۹: ۶۰)
میں اسی آیت کے مختلف اجزا کی وضاحت کروں گا:
زکوٰۃ کا سب سے پہلا مصرف فقرا اور مساکین کو بتایا گیا ہے۔ یہ ذکر میں تقدیم اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ان کا حق مقدم ہے۔ یہ دونوں لفظ جب الگ الگ استعمال ہوتے ہیں تو بسا اوقات ایک دوسرے کے ہم معنی کی حیثیت سے استعمال ہوتے ہیں،لیکن جب ایک ساتھ آتے ہیں تو استعمالات سے کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں میں ایک لطیف قسم کا فرق ہوتا ہے۔ فقیر سے وہ لوگ مراد ہوتے ہیں جو کمانے، ہاتھ پاؤں مارنے، زندگی کے لیے جدوجہد کرنے کا دم داعیہ تو رکھتے ہیں، لیکن مالی احتیاج ان کے راستہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہوتی ہے۔ اور مسکین سے وہ طبقہ مراد ہوتا ہے جو مسلسل غربت اور احتیاج کا شکار رہنے کے سبب سے جدوجہد کرنے اور مشکلات پر قابو پانے کا حوصلہ ہی کھو بیٹھتا ہے اور اس کے اوپر دل شکستگی اور مسکنت طاری ہو جاتی ہے۔ زکوٰۃ کا اولین مصرف یہ ہے کہ سوسائٹی کے ان دونوں طبقات کو اٹھانے کی کوشش کی جائے۔
اس اٹھانے میں جس طرح یہ بات شامل ہو گی کہ ان کی جسمانی ضروریات کھانا، کپڑا، اور مسکن فراہم کی جائیں، اسی طرح ان کی عقلی اور اخلاقی ترقی کے لیے یہ بھی ضروری ہو گا کہ ان کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا جائے۔ جس طرح یہ لازمی ہے کہ ان کی وقتی احتیاج رفع کی جائے، اسی طرح یہ بھی غالباً ضروری ہے کہ ان کو مفلسی اور بدحالی کی دلدل سے نکالنے کی مستقل تدبیریں اختیار کی جائیں تاکہ وہ اپنی ذاتی جدوجہد اور اپنی ذاتی صلاحیتوں کے بل بوتے پر سوسائٹی کے اندر با عزت زندگی بسر کر سکیں اور مستقلاً دوسروں پر بار بنے رہنے کے بجائے دوسروں کے بوجھ اٹھانے کے قابل ہو سکیں۔ ان مقاصد کے پیش نظر زکوٰۃ کی مد سے ان کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان بھی مہیا کیا جاسکتا ہے، ان کے لیے تعلیمی اور تربیتی ادارے بھی کھولے جا سکتے ہیں، ان کے لیے دارالمطالعے اور کتب خانے بھی قائم ہو سکتے ہیں، ایسے صنعتی ادارے بھی ان کے لیے جاری کیے جا سکتے ہیں، جن میں ان کے بچے مختلف قسم کی صنعتیں سیکھ کر مستقبل میں اپنے اوپر اعتماد کرنے کے قابل بن سکیں۔ اسی طرح ان کے علاج کے لیے ایسے شفاخانے بھی کھولے جا سکتے ہیں جہاں بوقت ضرورت ان کو مفت دوا حاصل ہو سکے۔ جہاں ان کی عورتوں کو ولادت کے موقع پر مفت طبی امداد حاصل ہو سکے۔ علیٰ ہذا القیاس، ان کے مردوں کی تجہیز و تکفین کا انتظام بھی کیا جا سکتا ہے اور ان کے زندوں اور مردوں کے قرضے بھی ادا کیے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بعض صورتوں میں تملیک ہو گی، بعض صورتوں میں نہیں ہو گی، لیکن زکوٰۃ کا نفع ہر صورت میں اصلاً غربا ہی کو پہنچے گایا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اجتماعی تملیک بہرحال غربا ہی کی ہو گی۔ اور اوپر ہم بتا چکے ہیں کہ اگر استدلال کی بنیاد ’ایتاء‘ کے لفظ پر ہے تو یہ لفظ اجتماعی تملیک کے لیے قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے۔
زکوٰۃ کا دوسرا مصرف زکوٰۃ کے عاملین ہیں۔ اگرچہ یہ زکوٰۃ کے مستحق تبعاً اور ضمناً ہیں۔ اصلاً نہیں ہیں، لیکن زکوٰۃ کی تحصیل و وصول میں چونکہ ان کو ایک ناگزیر عامل کی حیثیت حاصل ہے، اس وجہ سے ان کا ذکر دوسرے ہی نمبر پر آگیا ہے، عاملین سے مراد زکوٰۃ کے وصول کرنے والے کارکن ہیں۔ اس لفظ کے اندر تحصیل دار سے لے کر اس کے پٹواری اور سپاہی تک سب شامل ہیں:
قال ابن عباس ویدخل فی العامل، الساعی والکاتب والقاسم والحاشر الذی یجمع الاموال وحافظ المال و العریف.(نیل الاوطار۴/ ۱۸۰)
’’ابن عباس کہتے ہیں کہ عامل کے لفظ کے اندر تحصیل دار ، منشی، تقسیم کرنے والا، مال اکٹھا کرنے والا، خزانچی اور مکھیا سب شامل ہیں۔‘‘
احادیث اور تاریخ کے مطالعہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام کمیشن اور اجرت پر بھی لیا جاتا رہا ہے اور اس غرض کے لیے وصولی زکوٰۃ کے موسم میں خاص طور پر کارکن بھی بھرتی کیے جاتے رہے ہیں، لیکن یہ موقع ان تفصیلات میں جانے کا نہیں ہے۔ یہاں جو کچھ سامنے لانا ہے، وہ صرف یہ ہے کہ ایک اسلامی حکومت میں زکوٰۃ کی تحصیل اور اس کے اہتمام و انتظام پر جو عملہ مقرر ہو گا، اس کے چھوٹے اور بڑے سارے کارکنوں کی تنخواہیں اس سے دی جا سکتی ہیں۔ اس کے آمد و خرچ کے ریکارڈ رکھنے کے لیے جو دفاتر قائم ہوں گے، ان پر بھی اسی مد سے لازماً خرچ ہو گا۔ اور جب عاملین علیہا کے معاوضے اور ان کے دفاتر کے خرچ اس مد سے پورے کیے جا سکتے ہیں تو ’’عمل علیہا‘‘ پر یعنی حمل و نقل ، فراہمی اور حفاظت وغیرہ پر، نیز اس سلسلہ کے پروپیگنڈے پر جو کچھ خرچ ہو گا، آخر وہ کیوں نہیں اس مد سے پورا کیا جا سکتا؟
ایک اسلامی حکومت کی عدم موجودگی کی صورت میں اگر اسلامی اداروں کو زکوٰۃ کی وصولی اور اس کے صرف کا حق حاصل ہے، اور اس عاجز کے نزدیک ان کو یہ حق حاصل ہے، جیسا کہ دلائل کے ساتھ اوپر عرض کیا گیا تو لازماً یہ حق بھی ان کے لیے تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ زکوٰۃ کے مال اکٹھا کرنے، ان کے حساب کتاب رکھنے، ان کے لانے اور لے جانے، ان کے محفوظ کرنے اور محفوظ رکھنے، ان کے مصارف میں ان کے صرف کرنے پر، نیز اس مقصد کے لیے دعوت و تبلیغ پر جو کچھ وہ خرچ کریں گے، وہ سب اس مد سے دیا جا سکتا ہے۔
زکوٰۃ کا تیسرا مصرف مؤلفۃ القلوب ہیں۔ ابن کثیر نے مؤلفۃ القلوب کی مندرجہ ذیل قسمیں گنائی ہیں:
۱۔ ایسے غیر مسلم لیڈر اور سردار جن کو اسلام کی طرف مائل کرنا مقصود ہو۔
۲۔ ایسے با اثر نو مسلم جن کے اسلام سے پھر جانے کا اندیشہ ہو اور جن کا ارتداد اسلام اور مسلمانوں کے لیے مضر ہو سکتا ہو۔
۳۔ ایسے با اثر لیڈر جن کی تالیف قلب ان کے ہم چشموں کو اسلام کی طرف مائل کرنے میں مددگار ہو سکتی ہو۔
۴۔ ایسے سردار جو اپنے علاقہ میں اسلامی حکومت کو مالیہ کی وصولی میں مدد دیں اور سرحدی علاقوں کو دشمن کے خطرات سے محفوظ رکھنے میں حکومت کا ہاتھ بٹائیں۔۵
ایسے نو مسلم یا غیر مسلم سردار جن کو اسلام کے حق میں ہموار کرنے یا جن کو اسلام پر ثابت قدم رکھنے کے لیے صدر اول میں اسلامی بیت المال سے بھاری بھاری رقمیں دی گئی ہیں، ابن جوزی کے بیان کے مطابق تقریباً پچاس ہیں، جن میں سے چند ایک کے نام امام شوکانی نے ’’نیل الاوطار‘‘ میں بھی گنائے ہیں جن کو خودنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سو سو اونٹ دلوائے۔ ہم یہ نام یہاں نقل کرتے ہیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ کس کس طرح کے سرداران قبائل اور با اثر اشخاص مؤلفۃ القلوب کے زمرہ میں شامل رہے ہیں اور زکوٰۃ کی مد سے عطیے پانے کے مستحق قرار دیے گئے ہیں۔
صاحب ’’نیل الاوطار‘‘ نے جن ناموں کا حوالہ دیا ہے ،وہ یہ ہیں:
ابوسفیان بن حرب، صفوان بن امیہ، عیینہ بن حصن، اقرع بن حابس، عباس بن مرداس، علقمہ بن علاثہ۔
ابن کثیر نے زید الخیر کا نام بھی اس فہرست میں شامل کیا ہے۔ جو لوگ اس دور کی تاریخ سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ان میں سے بیشتر وہ لوگ ہیں جو اسلام کی تاثیر سے نہیں، بلکہ اسلام کی قوت سے مرعوب ہو کر اس کے مطیع ہوئے تھے، بلکہ ان میں سے صفوان بن امیہ کو تو کفر پر باقی رہتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے بڑے عطیے دیے،یہاں تک کہ خود ان کا اپنا بیان یہ ہے کہ حنین کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیا اور اس وقت میرے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی دوسرا مبغوض نہ تھا، لیکن آپ برابر دیتے رہے یہاں تک کہ پھر آپ سے زیادہ میرے نزدیک کوئی دوسرا محبوب نہ رہا۔
مذکورہ ناموں اور مذکورہ مقاصد پر ایک نظر ڈال کر ہر شخص خود اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ خرچ ایک بالکل پولیٹیکل خرچ ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو جو سیاسی اہمیت اور پولیٹیکل اثر و اقتدار رکھتے ہیں، اسلام اور اسلامی حکومت کے حق میں ہموار کیا جائے اور اگر وہ اسلام کے اندر(کسی نوعیت سے سہی) داخل ہو چکے ہیں تو ان کو اسلام پرمضبوط کیا جائے۔
احناف کے نزدیک اسلام کے غلبہ و اقتدار کے نمایاں ہو جانے کے بعد یہ مد ساقط ہو گئی،لیکن یہ بات کئی پہلووں سے کمزور معلوم ہوتی ہے۔
اور توجس واقعہ سے وہ اس کے سقوط پر استدلال کرتے ہیں، اس سے زیادہ سے زیادہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ایک خاص علاقہ کے سرداروں کو غلبۂ اسلام کے بعد ان رعایتوں سے محروم کر دیا جو انھیں بغرض تالیف قلوب حاصل تھیں۔ ظاہر ہے کہ اگر کسی علاقہ میں اسلامی حکومت اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ اسے اس طرح کے کسی پولیٹیکل خرچ کے سہارا لینے کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے تو وہ اس کو خواہ مخواہ کیوں جاری رکھے گی ؟ لیکن اس کے معنی یہ تو نہیں ہیں کہ اب کہیں بھی اس کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے یا کبھی بھی اس کی ضرورت نہیں پیش آ سکتی ہے۔
دوم یہ کہ اگر یہ مد اس لیے ساقط قرار دی گئی تھی کہ اس وقت اسلام کو پورا غلبہ حاصل ہو گیا تھا تو اب اس زوال اور مسلمان حکومتوں کے اس ضعف کے دور میں اس کو ازسر نو بحال ہو جانا چاہیے، کیونکہ اس دور میں تو شاید ہی کوئی مسلمان حکومت ایسی ہو جو اپنے حق میں دوسروں کو رام کرنے اور خود اپنوں کو اپنے حق میں ہموار رکھنے کی ضرورت سے بالکل مستغنی ہو۔
سوم یہ کہ کوئی حکومت خواہ کتنی ہی طاقت ور کیوں نہ ہو جائے، وہ اس قسم کے پولیٹیکل خرچ سے کبھی مستغنی نہیں ہوسکتی۔ امریکہ اور روس جیسی حکومتیں بھی آج اس بات کی محتاج ہیں کہ دوسروں کو اپنے اور اپنے نصب العین کے حق میں ہموار رکھنے کے لیے لاکھوں روپے خرچ کریں۔ پھر آج اگر ایک صحیح قسم کی اسلامی حکومت قائم ہو تو کس طرح اس چیز سے مستغنی رہ سکے گی۔ البتہ اگر فرق ہو گا تو یہ فرق ہو گا کہ اسلامی حکومت یہ سب کچھ دین حق اور کلمۂ حق کی سر بلندی کے لیے کرے گی اور یہ حکومتیں یہ سب کچھ کلمۂ کفر کی سربلندی کے لیے کرتی ہیں۔
چنانچہ دوسرے علما اور ائمہ یہی نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔
ابو عبید’’کتاب الاموال‘‘ میں حنفیہ کے نقطۂ نظر پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
واما ما قال الحسن وابن شہابفعلی ان الامر ماض ابدًا وھذا ھو القول عندی لان الایۃ محکمۃ لا نعلم لھانا سخا من کتاب ولا سنۃ فاذا کان قوم ھذا حالھم، لارغبۃ لھم فی الاسلام الا للنیل وکان فی ردتہم ومحاربتھم ضرر علی الاسلام لما عندھم من العز والمنعۃ، فرای الامام ان یرضخ لھم من الصدقۃ فعل ذالک لخلال ثلاث: احدا ھن الاخذ بالکتاب والسنۃ والثانیۃ البقیا علی المسلمین، والثالثۃ انہ لیس بیایس منھم ان تمادی بھم الاسلام ان یفقھوہ وتحسن فیہم رغبتہم.(کتاب الاموال۶۰۷)
’’اور یہ جو حسن اور ابن شہاب نے کہا ہے تو انھوں نے یہ پیش نظر رکھ کر کہا ہے کہ یہ حکم ہمیشہ باقی رہے گا۔ اور یہی قول ہمارا بھی ہے، کیونکہ یہ آیت محکم ہے، قرآن یا سنت سے اس کے منسوخ ہونے کا کوئی ثبوت ہمارے علم میں نہیں ہے۔ جب ایسے لوگ موجود ہوں جن کا اسلام کی طرف میلان صرف مال کے لیے ہو اور ان کے ارتداد یا ان سے جنگ کی صورت میں بھی ان کی طاقت و قوت کے سبب سے اسلام کے لیے خطرہ ہو تو ایسی صورت میں اگر اسلامی حکومت صدقہ کی مد سے ان کی دل جوئی کرے تو تین وجوہ سے وہ ایسا کر سکتی ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ ایسا کر کے کتاب و سنت کے ایک حکم کی تعمیل کرے گی، دوسری یہ کہ اس میں مسلمانوں کی ہمدردی ہے، تیسری یہ کہ وہ یہ توقع کر سکتی ہے کہ اگر ان لوگوں کو کچھ عرصہ اسی طرح اسلام پر قائم رکھا جا سکا تو کیا عجب وہ اسلام کو سمجھنے لگ جائیں اور دل سے اس کو قبول کر لیں۔‘‘
یہی نقطۂ نظر صاحب ’’نیل الاوطار‘‘ کا بھی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
والظاھر جواز التالیف عند الحاجۃ الیہ. فاذا کان فی زمن الامامقوم لا یطیعونہ الا للدنیا ولا یقدر علی ادخالھم تحت طاعتہ بالقسر والغلب فلہ ان یتالفھم ولا یکون لفشو الاسلام تاثیر لانہ لم ینفع فی خصوص ھذہ الواقعۃ.(نیل الاوطار۴/۱۷۷)
’’اور ظاہر بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اگر ضرورت داعی ہو تو مال کے ذریعہ سے پرچاناجائز ہے۔ اگر حکومت اسلامی کو ایسے لوگوں سے سابقہ ہو جو مال کے بغیر اطاعت کرنے پر راضی نہ ہوں، اور جبر و زور کے ذریعہ سے ان کو زیر اطاعت لانے کی قدرت نہ ہو تو اس کے لیے یہ جائز ہے کہ مال کے ذریعہ سے ان کی تالیف قلب کرے۔ اور اسلام کے غلبہ کا اس امر پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا ،کیونکہ مذکورہ صورت میں تو صاف واضح ہے کہ وہ کچھ موثر ثابت نہیں ہوا۔‘‘
یہی رائے علامہ ابن حزم نے’’المحلّٰی‘‘ میں ظاہر کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
وادعی قوم ان سھم المولفۃ قلوبھم قد سقط. قال ابو محمد وھذا باطل، بل ھم الیوم اکثر ما کانوا وانما یسقطون ھم والعاملون اذا تولی المرء قسمۃ صدقۃ نفسہ لانہ لیس ھنالک عاملون علیھا، وامر المولفۃ الی الامام لا الی غیرہ.( المحلّٰی ۶/۱۴۵)
’’اور ایک گروہ کا دعویٰ یہ ہے کہ مؤلفۃ القلوب کی مد ساقط ہو چکی ہے۔ اور ابو محمد (ابن حزم) کا کہنا یہ ہے کہ آج وہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ موجود ہیں۔ مؤلفۃ القلوب اور عاملین کی مدیں تو اس وقت ساقط ہوں گی جب ہر شخص اپنے اپنے صدقہ و زکوٰۃ کی تقسیم کی ذمہ داری خودسنبھال لے، کیونکہ اس صورت میں عاملین سرے سے ہوں گے ہی نہیں اور مؤلفۃ القلوب کا معاملہ تمام تر اسلامی حکومت سے متعلق ہے، افراد سے اس کا تعلق ہی نہیں ہے ۔‘‘
ان اقوال سے صاف ظاہر ہے کہ مؤلفۃ القلوب کی مد جس طرح پہلے ضروری تھی، اسی طرح اب بھی ضروری ہے اور اس مد پر زکوٰۃ کی مد سے خرچ کیا جا سکتا ہے۔البتہ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جس طرح ایک اسلامی حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ صدقات اور زکوٰۃ کی آمدنی سے اس خالص پولیٹیکل مقصد پر خرچ کرے، اسلامی حکومت کی عدم موجودگی میں دینی اداروں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے اس کو صرف کریں ؟ اس بارہ میں میرا رجحان یہ ہے کہ یہ ایک پولیٹیکل خرچ ہے جس کی ذمہ داریوں سے کما حقہ عہدہ برآ ہونا ایک حکومت ہی کے لیے ممکن ہے۔ اس وجہ سے پبلک اداروں اور انجمنوں کو اپنے تصرفات اسی حد تک محدود رکھنے چاہییں جس حد تک محدود رکھنے کا انھوں نے اظہار و اعلان کیا ہے اور جس دائرہ کے اندر خرچ کرنے کے لیے زکوٰۃ ادا کرنے والوں نے ان پر اعتماد کیا ہے۔ صرف بعض صورتیں اس سے مستثنیٰ کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً اگر کسی جگہ کے مسلمان بالکل کفر اور اہل کفر کے زیر اثر آ گئے ہوں اور وہ محسوس کرتے ہوں کہ مال خرچ کر کے بعض مسلمانوں کو کفر کے لیے استعمال ہونے سے بچایا جا سکتا ہے یا اس کے ذریعہ سے مخالفین کو اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی سے روکا جا سکتا ہے تو اس مقصد کے لیے زکوٰۃ کے مال میں سے بھی وہ خرچ کر سکتے ہیں۔
’ فی الرقاب‘ سے مطلب یہ ہے کہ غلاموں کے آزاد کرنے پر بھی زکوٰۃ کی مد سے خرچ کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اب غلامی کا مسئلہ ختم ہو چکا ہے، لیکن قرآن کے نزول کے وقت یہ مسئلہ موجود تھا اس وجہ سے ایک اہم انسانی خدمت کے پہلو سے ان کی اعانت اور ان کی آزادی کو بھی زکوٰۃ کے مصارف میں سے ایک مصرف قرار دیا گیا۔
اس امر میں اختلاف ہوا ہے کہ اس سے مراد ہر طرح کے غلام ہیں یا صرف وہ غلام مراد ہیں جو اپنے آقاؤں سے ایک متعینہ رقم کی ادائیگی کی شرط پر اپنی آزادی کا اقرار حاصل کر لیتے ہیں،جن کو اصطلاح میں مکاتب کہتے ہیں۔ احناف اور شوافع کے نزدیک اس سے صرف مکاتب مراد ہیں۔ لیکن ابن عباس، حسن بصری، امام مالک، امام احمد بن حنبل، ابوثور، ابو عبید اور امام بخاری وغیرہ کے نزدیک یہ دونوں قسم کے غلاموں کے لیے عام ہے۔ ان کے نزدیک صدقات کی رقم سے ایک غلام کو خرید کر آزاد کرنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے، بلکہ مکاتب کی اعانت کے مقابل میں اولیٰ و افضل ہے۔۶لیکن احناف اور شوافع کے نزدیک صدقات کی مد سے مکاتب کی اعانت تو کی جا سکتی ہے، لیکن کسی غلام کو مستقلاً خرید کر آزاد نہیں کیا جا سکتا۔
مجھے اس معاملہ میں امام مالک اور امام احمد بن حنبل کا مذہب زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے۔ اول تو اس سبب سے کہ اس بحث میں سارا مدار سخن حرف لام پر ہے، تھوڑی دیر کے لیے مان لیجیے کہ وہ تملیک ہی کے مفہوم کے لیے خاص ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ’ الرقاب‘ پر وہ کہاں داخل ہے۔ یہاں سے تو اب ’فی‘کا دخل شروع ہو جاتا ہے اور اس کے بعد جتنے مصارف بیان ہوئے ہیں، سب ’فی‘ ہی کے تحت ہیں۔ ’فی‘ کے متعلق یہ دعویٰ کوئی بھی نہیں کر سکتا کہ اس کے اندر بھی تملیک کے مفہوم کا کوئی شائبہ پایا جاتا ہے۔ اس کے اندر تو جیسا کہ اوپر گزرا مصلحت ، مفاد اور بہبود کا مفہوم پایا جاتا ہے جس کے معنی یہ ہوئے کہ زکوٰۃ غلاموں کی بہبود اور ان کو آزاد کرنے کے لیے صرف کی جا سکتی ہے، قطع نظر اس سے کہ تملیک پائی جائے یا نہیں۔ ثانیاً ،یہ کہ ہم مانے لیتے ہیں کہ تملیک کا مفہوم ’فی‘ کے اندر بھی گھسا ہوا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہم ایک غلام کو اس کے مالک سے خرید کر آزاد کر دیتے ہیں تو اس میں تملیک کیوں نہیں پائی جاتی؟ اگر ایک مسکین کو زکوٰۃ کے پیسوں سے روٹی خرید کر دے دیں تو اس صورت میں تملیک پائی جائے گی یا نہیں۔ اسی طرح اگر ایک شخص کو ہم اس کی آزادی خرید کر اس کے حوالہ کر دیتے ہیں تو آخر اس میں تملیک کیوں نہیں پائی گئی؟ یہ ہم نے اس مفروضہ پر عرض کیا ہے کہ تملیک کا مفہوم ’فی‘کے اندر بھی لے لیا جائے، لیکن ہمارے نزدیک، جیسا کہ عرض کیا گیا ، یہ صحیح نہیں ہے۔ ’فی‘اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ صدقات و زکوٰۃ غلاموں کی بہبود اور ان کی آزادی کی مہم میں صرف کیے جا سکتے ہیں۔اگر کوئی مکاتب اپنی مکاتبت کی رقم ادا کرنے کے لیے اعانت کا طالب ہے تو آپ اس کو بھی دے سکتے ہیں اور اگر آپ خود کسی غلام کو خرید کر اس کو آزاد کرنا چاہیں تو یہ بھی بے تکلف کر سکتے ہیں، بلکہ خدانخواستہ کسی جنگ کے نتیجہ کے طور پردنیا میں پھر غلامی کا مسئلہ ہو جائے اور خدمت انسانیت کے نصب العین کو سامنے رکھ کر ایسی انجمنیں قائم ہوں جو ان غلاموں کی آزادی اور ان کی سود وبہبود کے لیے وسیع پیمانہ پر تحریک چلائیں تو اس تحریک پر بھی صدقات و زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنے میں کوئی مضایقہ نہیں ہونا چاہیے۔
ممکن ہے کسی کو یہ شبہ ہو کہ چونکہ مستقلاً کسی غلام کو آزاد کرنے کی صورت میں اس کا حق ولا اس کے آزاد کرنے والے کو حاصل ہو گا اور یہ خود اپنی زکوٰۃ سے ایک قسم کے انتفاع کی شکل ہوئی، اس وجہ سے اس کو ناجائز ہونا چاہیے، لیکن میرے نزدیک یہ شبہ کچھ وزنی نہیں ہے۔ اول تو یہ اعتراض اس صورت میں سرے سے وارد ہی نہیں ہوتا، جبکہ کوئی اسلامی حکومت یا پبلک ادارہ زکوٰۃ کے فنڈ سے کسی غلام کو خرید کر آزاد کرے، کیونکہ اس صورت میں اس آزاد کردہ غلام کا ولا عام مسلمانوں کو حاصل ہو گا جو شخصی انتفاع کے ہر شائبہ سے پاک ہے۔ثانیاً ،زکوٰۃ یا اس طرح کی کسی چیز سے صرف وہ شخصی انتفاع ناجائز ہے جس کو پیش نظر رکھ کر ہی زکوٰۃ دی جائے یا وہ کام کیا جائے۔ لیکن اگر یہ صورت نہ ہو، بلکہ زکوٰۃ تو دی جائے اس کے اصل مقصد کو سامنے رکھ کر، لیکن اس کے نتیجہ میں زکوٰۃ دینے والے کو کوئی ضمنی فائدہ بھی حاصل ہو جائے تو اس کے سبب سے اس کا یہ کام ناجائز نہیں ہو گا۔ اگر ایک شخص حج اس لیے کرتا ہے کہ وہ عرب کی سیاحت کرنا چاہتا ہے تو اس کا حج بلاشبہ نہیں ہو گا، لیکن اگر وہ حج، حج کے ارادہ سے کرتا ہے اور اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر اسے حجاز کی سیاحت کا بھی موقع مل جاتا ہے تو آخر اس سے اس کا حج کیوں باطل ہو جائے گا؟
زکوٰۃ و صدقات کا مال غارمین کی امداد میں بھی خرچ کیا جا سکتا ہے۔ غارمین سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی کاروباری اتار چڑھاؤ یا حالات کی نا مساعدت کے سبب سے قرضے کے نیچے دب گئے ہوں۔ یا کسی آفت ارضی و سماوی، سیلاب یا قحط نے ان کے گلہ یا باغ یا کھیتی یا سرمایہ یا مکانات یا کاروبار کو تباہ کر دیا ہو یا انھوں نے اصلاح ذات البین کے ارادہ سے دوسروں کی کوئی مالی ذمہ داری اپنے سر لے لی ہو۔
اس طرح کے لوگوں کی امداد اس نقطۂ نظر سے کی جائے گی کہ یہ معاشرہ کے کماؤ اور قابل افراد ہیں، ان کو گرنے اور تباہ ہونے سے بچایا جائے تاکہ یہ جس چکر میں آگئے ہیں، اس سے نکل کر پھر اپنی صلاحیتوں سے قوم اور معاشرہ کو بہرہ مند کر سکیں۔ ان کی امداد ان کے فقر یا ان کی مسکنت کی بنا پر نہیں کی جائے گی۔ اگر اس بنا پر کی جانی ہوتی تو ان کا ذکر ایک مستقل عنوان سے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ پھر تو یہ فقرا اور مساکین کے زمرہ میں آپ سے آپ آجاتے ۔ اس وجہ سے ان لوگوں کی احتیاج کے ناپنے کا پیمانہ اس سے بالکل مختلف ہو گا جو فقرا اور مساکین کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے دلائل ملاحظہ ہوں:
کتب عمر بن عبدالعزیز ان اقضوا عن الغارمین فکتب الیہ انا نجد الرجل لہ المسکن، والخادم والفرس والاثاث فکتب عمر انہ لا بد للمرء المسلم من مسکن یسکنہ، وخادم یکفیہ مھنتہ، وفرس یجاھد علیہ عدوہ ومن ان یکون لہ الاثاث فی بیتہ. نعم فاقضوا عنہ.(کتاب الاموال ۵۵۶)
’’حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عمال کو یہ فرمان لکھا کہ زیر باروں (غارمین) کے قرضے ادا کیے جائیں۔ ان کے عمال کی جانب سے ان کو یہ اطلاع دی گئی کہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پاس مکان موجود ہے، نوکر موجود ہے، گھوڑا موجود ہے، گھر میں فرنیچر اور اثاثہ موجود ہے۔ کیا ایسے لوگوں کے قرضے بھی اتارے جائیں؟ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جواب میں لکھا کہ ایک مسلمان کے لیے ایک مکان جس میں وہ رہ سکے، ایک نوکر جو اس کا ہاتھ بٹا سکے، ایک گھوڑا جس پر وہ اپنے دشمن سے مقابلہ کر سکے اور گھر میں کچھ سروسامان تو ناگزیر چیزیں ہیں۔ اس وجہ سے میں کہتا ہوں کہ ہاں، ان لوگوں کے قرضے بھی ادا کرو۔‘‘
معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عمال کو یہ شبہ ہوا تھا کہ غارمین جب تک فقر کی اس حد کو نہ پہنچ جائیں جو فقرا و مساکین کے لیے مقرر ہے، اس وقت تک صدقات کی مد سے ان کے قرضے یا ان کی ذمہ داریاں نہیں ادا کی جا سکتی ہیں، لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے جواب سے یہ بات صاف کر دی کہ اس طبقہ کا صرف فقر دور کرنا مقصود نہیں ہے، بلکہ اس کو اٹھانا مقصود ہے۔ اس وجہ سے اس کی احتیاج کو اس پیمانہ سے نہ ناپو جس پیمانہ سے فقرا و مساکین کی احتیاج کو ناپتے ہو۔
اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد معدلت گستر میں اپنے عمال کو یہ حکم دیا تھا کہ:
اعطوا من الصدقۃ من ابقت لہ السنۃ غنما ولا تعطوھا من ابقت لہ السنۃ غنمین.(کتاب الاموال۱/۶۶۹)
’’صدقہ کے مال سے ان کی مدد کرو جن کا قحط سے صرف ایک ریوڑ بچ رہا ہو۔ ان کی مدد نہ کرو جن کے پاس دو ریوڑ بچ رہے ہوں۔‘‘
روایت میں لفظ ’غنم‘کاہے۔ ’غنم‘سے مراد بکریوں کا ایک ریوڑ ہوتا ہے جو کم و بیش سو بکریوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ سو بکریاں اس حد احتیاج سے بہت زیادہ ہیں جن میں آدمی زکوٰۃ کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اتنی بکریوں کی موجودگی میں تو اس سے زکوٰۃ وصول کی جاتی ہے، لیکن اگر قحط یا سیلاب یا کسی دوسری آفت کے سبب سے کسی کا گلہ یا اس کے مویشی تباہ ہو جائیں اور اس کے پاس صرف سو بکریاں بچ رہیں تو وہ بحیثیت ایک غارم کے مستحق ہے کہ حکومت اسلامی صدقات کے فنڈ سے اس کو سہارا دے تاکہ وہ اپنے کاروبار کو سنبھالے رکھ سکے۔
جو شخص محض اس بنا پر غارم کے حکم میں آجاتا ہے کہ اس نے مسلمانوں کے آپس کے کسی جھگڑے کو چکانے کی خاطر کوئی مالی ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے تو اس کی غربت و امارت کا تو کوئی سوال سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا۔ وہ تو ایک صاحب مال ہوتے ہوئے بھی ایک غارم ہے اور مستحق ہے کہ اپنی اٹھائی ہوئی اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے صدقات و زکوٰۃ سے امداد پائے۔ امام شوکانی لکھتے ہیں:
’’اہل عرب کا حال یہ تھا کہ جب ان کے درمیان کوئی ایسا جھگڑا برپا ہوتا جو دیت وغیرہ کی قسم کے کسی مالی مطالبہ پر مبنی ہوتا تو کوئی شخص اٹھتا اور جھگڑے کو چکانے کے لیے محض للہ فی اللہ اس ذمہ داری کو اپنے سر لے لیتا اور جھگڑا ختم ہو جاتا۔ یہ چیز مکارم اخلاق میں شامل ہے۔ جب لوگوں کو پتا چلتا کہ کسی شخص نے اس طرح کی کوئی ذمہ داری اٹھالی ہے تو اس کی امداد کے لیے سبقت کرتے، یہاں تک کہ وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتا۔ اور اگر اس مقصد کی خاطر اس کو لوگوں سے سوال کرنے کی نوبت آتی تو یہ چیز اس کی عزت میں کوئی کمی نہ کرتی، بلکہ اس کے لیے وجہ فخر ہوتی۔‘‘ (نیل الاوطار۴/ ۱۷۹)
بس ایک چیز اس میں دیکھنے کی ہے، وہ یہ کہ ایک شخص فی الواقع کسی ارضی و سماوی آفت یا کسی واقعی اتار چڑھاؤ کی زد میں آ کر زیر بار ہوا ہے یا محض اپنی مشیخت اور اپنے اسراف یا اپنے شوق قسمت آزمائی کا شکار ہوا ہے۔ اگر پہلی صورت ہے تو وہ غارم ہے اور زکوٰۃ کے فنڈ سے مدد پانے کا مستحق، لیکن اگر دوسری صورت ہو تو اس کی حوصلہ افزائی کم از کم زکوٰۃ و صدقات کی مد سے نہیں کرنی چاہیے۔ ورنہ یہ چیز بہتوں کو غلط راہ پر ڈال دے گی۔
فی سبیل اللہ ایک وسیع مفہوم رکھنے والی اصطلاح ہے جس کے اندر نیکی اور بھلائی کے وہ سارے کام داخل ہیں جن کی طرف اللہ اور اس کے رسول نے رہنمائی فرمائی ہے۔ اس کے مقابل اصطلاح فی سبیل الطاغوت ہے جس سے مراد وہ پورا نظام ضلالت ہے جو شیطان نے بچھا رکھا ہے۔ اس تقابل کی روشنی میں غور کیجیے تو یہ بات آپ سے آپ نکلتی ہے کہ فی سبیل اللہ سے مراد وہ پورا نظام ہدایت بحیثیت مجموعی بھی ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے اور اس کے الگ الگ اجزا بھی اس سے مراد ہو سکتے ہیں۔ اگر بحیثیت مجموعی اس پورے نظام کے قیام و بقا اور اس کے استحکام پر صدقات و زکوٰۃ کی مد سے خرچ کیا جائے جب بھی کوئی مضایقہ نہیں ہے۔ اور اگر اس کے کسی ایک ہی جز کی حفاظت و ترقی پر اس کو صرف کیجیے جب بھی وہ فی سبیل اللہ ہے۔ انفاق اور جہاد بالمال کے تعلق کے ساتھ جہاں جہاں فی سبیل اللہ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے، ہم اس کی بعض مثالیں یہاں قرآن مجید سے نقل کرتے ہیں تاکہ کچھ اندازہ ہو سکے کہ اس اصطلاح کے تحت کیا کیا چیزیں آ سکتی ہیں:
وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلاَ تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ.(البقرہ۲:۱۹۵)
’’اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘
یہاں فی سبیل اللہ سے مراد جہاد بالسیف ہے جو اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت اور خانہ کعبہ کو کفار کے پنجہ سے چھڑانے کے لیے جاری تھا:
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ.(البقرہ۲:۲۶۱)
’’ان لوگوں کے خرچ کی مثال جو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ایسی ہے جیسے ایک دانہ اُگائے سات بالیاں۔‘‘
یہاں فی سبیل اللہ سے مراد عام مصارف خیر ہیں جن میں نیکی اور بھلائی کے سارے کام داخل ہیں:
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ لاَ یُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلاآاَذًی.(البقرہ۲:۲۶۲)
’’جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنا مال اللہ کے راستہ میں اور اس خرچ کے پیچھے اظہار احسان اور ایذا کی بلا نہیں لگا دیتے۔‘‘
مذکورہ آیت میں بھی فی سبیل اللہ سے فقرا اور مساکین اور اس طرح کے دوسرے مستحقین مراد ہیں:
لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ.(البقرہ۲:۲۷۳)
’’ان فقرا کے لیے خرچ کیا جائے جو اللہ کی راہ میں بندھ گئے ہیں اور زمین میں ہاتھ پاؤں نہیں مار سکتے۔‘‘
اس آیت میں سیاق کلام سے واضح ہے کہ فی سبیل اللہ سے دین اور علم دین مراد ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ لِیَصُدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ. (الانفال۸:۳۶)
’’جن لوگوں نے کفر کیا، وہ اپنا مال اس لیے خرچ کرتے ہیں کہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکیں۔‘‘
یہاں سبیل اللہ سے مراد اسلام بحیثیت مجموعی ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ.(الانفال۸:۷۲)
’’بے شک جو لوگ ایمان لائے، جنھوں نے ہجرت کی اور جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔‘‘
یہاں فی سبیل اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ سے مراد اقامت دین کی جدوجہد بحیثیت مجموعی ہے۔
اسی طرح ابوداؤد کی ایک روایت ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج بھی فی سبیل اللہ میں شامل ہے: ’فان الحج من سبیل اللّٰہ‘۔
مذکورہ بالا استعمالات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فی سبیل اللہ کے اندر نیکی اور خیر کے سارے ہی کام داخل ہیں۔ اگر یہ لفظ تنہا بولا جائے تو اس سے خیر کا کوئی خاص کام بھی مراد ہو سکتا ہے، اگر موقع کلام کسی خاص چیز کو متعین کر دے۔ اور پورا دین بھی اس سے مراد ہو سکتا ہے، اگر موقع عمومیت کا ہو۔ اور اگر نیکی اور بھلائی کے چند متعین کاموں کے ساتھ اس کا ذکر آئے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ان خاص خاص کاموں کے بعد اس جامع اصطلاح نے بقیہ دوسرے دین کے سارے کاموں کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔ یہ میں نے جو کچھ عرض کیا ہے، بعینہٖ یہی بات دوسرے محقق علما نے بھی لکھی ہے۔ علامہ آلوسی حنفی اپنی تفسیر ’’روح المعانی‘‘ میں فی سبیل اللہ کی تفسیر کے تحت حنفیہ کا مسلک نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قیل المراد طلبۃ العلم واقتصر علیہ فی الفتاوی الظھیریہ وفسرہ فی البدائع بجمیع القرب فیدخل فیہ کل من سعی فی طاعۃ اللّٰہ تعالٰی وسبل الخیرات.(روح المعانی۱۰/۱۲۳)
’’کہا گیا ہے کہ اس سے مراد طالب علم ہیں اور ’’فتاویٰ ظہیریہ‘‘ میں اس مد کو طلبہ ہی تک محدود کر دیا گیا ہے، لیکن ’’بدائع الصنائع‘‘ میں اس کی تفسیر یوں کی گئی ہے کہ اس میں نیکی اور قرب الٰہی کے سارے ہی کام داخل ہیں تو جو شخص بھی اللہ کی اطاعت اور بھلائی کے کاموں میں جدوجہد کرے گا، وہ اس میں شامل ہو گا۔‘‘
ابن عربی ’’احکام القرآن‘‘ میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قال مالک سبل اللّٰہ کثیرۃ.... احمد واسحٰق فانھما قالا انہ الحج والذی یصح عندی من قولھما ان الحج من جملۃ السبل مع الغزو.(۲/۹۶۹)
’’فی سبیل اللہ کے متعلق امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ اللہ کے راستے بہت سے ہیں۔ امام احمد اور اسحق کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد حج ہے، لیکن میرے نزدیک ان کے قول کا صحیح منشا یہ ہے کہ حج بھی جہاد کی طرح اللہ کے راستوں میں سے ایک راستہ ہے۔‘‘
’’تفسیر کبیر‘‘ اور ’’تفسیر خازن‘‘ میں فی سبیل اللہ کے تحت یہ قول ملاحظہ فرمائیے:
واعلم ان ظاہر اللفظ فی قولہ وفی سبیل اللّٰہ لا یوجب القصر علی کل الغزاۃ فلھذا المعنی نقل القفال فی تفسیرہ عن بعض الفقھاء انھم اجازوا صرف الصدقات الٰی جمیع وجوہ الخیر من تکفین الموتٰی و بناء الحصون وعمارۃ المساجد لان قولہ وفی سبیل اللّٰہ عام فی الکل(التفسیر کبیر ۶/۸۷؛تفسیر خازن۲/ ۳۰۷)
’’فی سبیل اللہ کے ظاہر الفاظ اس بات کو لازم نہیں کرتے کہ اس مد کو تمام تر مجاہدین کے لیے خاص کر دیا جائے۔ اسی وجہ سے قفال نے اپنی تفسیر میں بعض فقہا کے متعلق یہ نقل کیا ہے کہ وہ صدقات کو تمام مصارف خیر، مثلاً مردوں کی تجہیز و تکفین، قلعوں کی تعمیر، مساجد کی تعمیر پر خرچ کرنا جائز قرار دیتے ہیں، کیونکہ فی سبیل اللہ کے الفاظ ان تمام چیزوں پر حاوی ہیں۔‘‘
علامہ ابن حزم’’المحلّٰی‘‘ میں فی سبیل اللہ کے تحت یہ فرماتے ہیں:
فلنا نعم وکل فعل خیر فھو من سبیل اللّٰہ تعالٰی.(۴/۱۵۱)
’’ہم کہتے ہیں ہاں، نیکی اور بھلائی کا ہر کام فی سبیل اللہ کے تحت داخل ہے۔‘‘
اس دور آخر کے مشہور سلفی عالم علامہ رشید رضا مرحوم اپنی ’’تفسیر المنار‘‘ میں فی سبیل اللہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
و فی سبیل اللّٰہ وھو یشمل سائر المصالح الشرعیۃ العامۃ التی ھی ملاک امر الدین والدولۃ واولھا واولاھا بالتقدیم الاستعداد للحرب بشراء السلاح واغذیۃ الجندوادوات النقل و تجھیز الغزاۃ وتقدم مثلہ عن محمد بن عبد الحکم.(تفسیر المنار۱۰ / ۵۰۵۔۵۰۶)
’’فی سبیل اللہ کے الفاظ ان تمام شرعی مصالح پر مشتمل ہیں جن پر مذہب اور حکومت کا انحصار ہے۔ ان میں سب سے اول اور سب پر مقدم یہ ہے کہ جنگ کی تیاری کے لیے اسلحہ خریدے جائیں، فوج کے لیے غذائی سامان فراہم کیا جائے، ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جائے، مجاہدین کو سامان حرب سے لیس کیا جائے۔ اسی طرح کا قول محمد بن حکم سے مروی ہے۔‘‘
ہمارے ملک کے بلند پایہ عالم مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’سیرۃ النبی‘‘ میں فی سبیل اللہ کے متعلق اپنی رائے لکھتے ہیں:
’’فی سبیل اللہ کا وسیع مفہوم ہے جو ہر قسم کے نیک کاموں کو شامل ہے۔‘‘(۵/۱۷۶)
مذکورہ بالا اقوال سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ فی سبیل اللہ کی مد ایک وسیع مد ہے۔ اس میں نیکی اور بھلائی کے سارے ہی کام داخل ہیں۔ اسلام کی دینی و دنیاوی مصلحت کی کوئی بات بھی ایسی نہیں رہ گئی ہے جو اس کے اندر سمٹ نہ آئی ہو۔ اس میں کسی پہلو سے تملیک کا بھی کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا، کیونکہ اول تو یہاں کوئی چیز ایسی ہے نہیں جس سے تملیک کا مفہوم اخذ کیا جا سکے لے دے کر ایک’’لام‘‘ تھا ،لیکن اس کی جگہ پر بھی جیسا کہ عرض کیا گیا، یہاں ’فی‘ ہے جس کے اندر تملیک کا کوئی ادنیٰ شائبہ بھی نہیں پایا جاتا۔ ثانیاً، اگر اس کے تحت تمام تر مصارف خیر آتے ہیں، جیسا کہ ہر مسلک کے علما اور ائمہ نے تصریح کی ہے تو تملیک شخصی کا تو ان ساری صورتوں میں پایا جانا ممکن ہی نہیں ہے۔ اگر ممکن ہے تو تملیک اجتماعی کا پایا جانا ممکن ہے اور اس سے ہمیں اختلاف نہیں ہے۔ پس اگر بالفرض کسی چیز کے جواز میں اس پہلو سے کسی کو تردد ہے کہ ’لِلْفُقَرَآءِ‘ کی ’’لام‘‘ کے یہ منافی ہے تو اس کو چھوڑیے، یہ دیکھیے کہ وہ فی سبیل اللہ کی مد کے تحت آتی ہے یا نہیں؟ اگر آتی ہے تو اس کے جواز کی یہ دلیل کافی ہے۔
ابن السبیل سے مراد مسافر ہے۔ مسافرت بجاے خود ایک ایسی حالت ہے جو بجا طور پر آدمی کو مدد کی محتاج اور مستحق بنا دیتی ہے۔ایک اوسط درجہ کا آدمی بھی جو اپنے شہر میں ایک کھاتا پیتا آدمی شمار ہوتا ہے، اگر کسی سفر پر مجبور ہو جائے تو اس کے لیے یہ ممکن نہیں رہ جاتا کہ ہر جگہ اپنی ساری ضروریات خود پوری کر سکے۔ یہ تو صرف تھوڑے سے مال داروں ہی کے لیے ممکن ہے کہ وہ جہاں بھی جائیں اعلیٰ درجہ کے ہوٹلوں میں ٹھیریں، ٹیکسیوں میں گشت کریں اور اگر بیمار پڑ جائیں تو اپنے مستقر ہی پر ڈاکٹر بلا کر علاج کرائیں۔ ایک عام آدمی، اگر چہ وہ محتاج اور فقیر کی تعریف میں نہ آتا ہو، سفر میں اپنی ساری ضروریات اگر خود اپنی جیب کے بل پر پوری کرنی چاہے تو یہ اس کے لیے ناممکن ہو گا۔ وہ تو بہرحال مجبور ہو گا کہ اگر رات گزارنی ہو تو کسی مسافر خانہ یا سرائے کا پتا معلوم کرے، اگر بیمار ہو جائے تو کسی خیراتی شفاخانہ میں داخل ہونے کی کوشش کرے اور اگر ٹرانسپورٹ کا کوئی رعایتی یا مفت ذریعہ ہاتھ آجائے تو اس سے فائدہ اٹھائے۔ اگر وہ یہ کچھ نہ کرے گا تو اس کے لیے کسی لمبے سفر کے مصارف کا بار اٹھانا ناممکن ہو جائے گا۔ اس وجہ سے شریعت نے اس کو عام معنوں میں محتاج نہ ہونے کے باوجود صدقات و زکوٰۃ سے فائدہ اٹھانے کا حق دیا ہے۔ ابن کثیر نے ابوداؤد کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے:
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا تحل الصدقۃ لغنی الا فی سبیل اللّٰہ اوابن السبیل او جار فقیر فیھدی لک او یدعوک.(تفسیر القرآن العظیم۲/ ۳۶۶)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی غنی کے لیے صدقہ جائز نہیں ہے، مگر تین صورتوں میں: وہ اللہ کی راہ میں ہو یا مسافر ہو یا کوئی غریب پڑوسی ہو جو صدقہ کے مال میں سے تمھارے لیے ہدیہ بھیجے یا کھانے پر بلائے۔‘‘