HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

پبلک اداروں کی حیثیت

اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ زکوٰۃ کے وصول کرنے اور اس کے تقسیم کرنے کا فریضہ اصلاً ایک اسلامی حکومت ہی سے متعلق ہے۔ وہی جائز طور پر اس بات کی حق دار ہے کہ مال داروں سے اموال ظاہرہ کی زکوٰۃ وصول کرے اور اس کے مصارف میں اس کو صرف کرے، لیکن اگر کسی جگہ کے مسلمان ایک صحیح اسلامی حکومت یا کم از کم جائز قسم کی اسلامی حکومت کی برکت سے محروم ہوں تو ان کے لیے صحیح طریقہ کیا ہے؟ کیا یہ کہ ان میں سے ہر شخص خود مستحقین کو تلاش کرکے ان میں اپنی زکوٰۃ تقسیم کر دے یا یہ کہ زکوٰۃ وصول کرنے اور تقسیم کرنے کے لیے انھیں اپنے اندر کوئی اجتماعی نظم پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور اس کے ذریعہ سے زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کا ممکن حد تک کوئی مناسب بندوبست کرنا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں میرا رجحان یہ ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ دوسری ہی صورت صحیح ہے۔ میرے نزدیک اس کی دو وجہیں ہیں:

۱۔ اسلام کا مزاج یہ ہے کہ اگر اس کے احکام میں سے کسی حکم کی بجا آوری اس کی اصلی معیاری شکل میں کسی مانع کے سبب سے ممکن نہ ہو تو وہ چاہتا ہے کہ اس حکم کی تعمیل کسی ایسی شکل میں کی جائے جو اصلی شکل سے ملتی جلتی یا کم از کم ذہنوں کے اندر اصلی شکل کی یاد محفوظ کرانے والی ہو تاکہ اصلی حالت کی طرف لوٹنے اور اس کو دوبارہ حاصل کرنے کا شوق دلوں کے اندر قائم رہے۔ چنانچہ جب وضو کرنا کسی مانع کے سبب سے ممکن نہیں ہوتا ہے تو اس کی جگہ پر تیمم کی ہدایت کی گئی ہے، اگر نماز اس کی اصلی صورت میں ادا کرنی ممکن نہ ہو تو اس سے قریب تر صورت پر اس کو ادا کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ جنگ کے خطرناک ترین حالات کے اندر بھی اس کے لیے ایسی صورتیں تجویز کی گئی ہیں جس سے اس کی اصلی صورت کا تصور ذہنوں میں باقی رہ سکے۔ یہی صورت حال دین کے دوسرے احکام کے اندر بھی ہے۔ اگر ان کو اس معیاری شکل میں ادا نہیں کیا جا سکتا ہے جو قرآن یا حدیث میں ان کے لیے تجویز کی گئی ہے تو حالات کے لحاظ سے اصل سے ممکن حد تک قریب تر شکل میں ان کو ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اس کلیہ کو پیش نظر رکھ کر اگر زیر بحث سوال پر غور کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کا کام دین میں اجتماعی طور پر مطلوب ہے اور اس کے انجام دینے کی اصلی مجاز اور حق دار درحقیقت ایک اسلامی حکومت ہی ہے، اس وجہ سے اس کی عدم موجودگی میں دین کے مزاج سے قریب تر بات یہی ہو گی کہ مسلمانوں کے اندر جس طرح کا نظام شرعی بھی موجود ہو، اسی کو اس فرض کی انجام دہی کا ذریعہ بنایا جائے۔ اور اگر خدانخواستہ کسی قسم کی بھی کوئی اجتماعی تنظیم دینی باقی نہ رہ گئی ہوتو مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اسی قسم کی کوئی تنظیم قائم کرنے کی کوشش کریں۔ حد یہ ہے کہ اگرکوئی ایک بھی تنظیم قائم نہ ہو سکے تو اصل سے قریب تر لانے کے لیے یہ شکل بھی گوارا کی جا سکتی ہے کہ ایک سے زیادہ تنظیمیں ہوں جو اپنے اپنے حلقۂ اثر اور اپنے دائرۂ اعتماد کے اندر اس فرض کو انجام دیں۔ اگرچہ ایک تنظیم کی جگہ کئی تنظیموں کا ہونا ایک انتشار کی صورت ہے، لیکن اصل نصب العین سے ذہنوں کو وابستہ رکھنے کے لیے یہ اس کے مقابل میں کہیں بہتر ہے کہ سرے سے کوئی نظم ہی باقی نہ رہ جائے اور ایک کامل انتشار کی حالت طاری ہو جائے۔

۲۔ اگر کسی نوعیت کی بھی کوئی تنظیم باقی نہ رہ جائے یا کسی تنظیم کے بھی، جو موجود ہو، استحقاق کو تسلیم نہ کیا جائے، بلکہ ایک ایک شخص پر اس کی زکوٰۃ کے ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری ڈال دی جائے تو یہ چیز اغنیا کے نقطۂ نظر سے بھی نہایت مضر ہو گی اور غربا کے نقطۂ نظر سے بھی نہایت مہلک ہو گی۔ اول تو کسی محرک یا داعی کے نہ ہونے کے سبب سے بہت زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ جو مسلمان آج اپنے مالوں کی زکوٰۃ نکالتے ہیں، وہ زکوٰۃ نکالنی ہی چھوڑ دیں۔ اور اگر نکالیں بھی تو ان کی سہل انگاریوں کی وجہ سے اس کا بڑا حصہ ضائع ہی ہو جائے، بازار میں ایک تنظیم کے زیر اہتمام فروخت ہونے کی صورت میں قربانی کی جس کھال کی قیمت تین چار روپے مل سکتی ہے، بہت ممکن ہے کہ انفرادی طور پر فروخت کرنے کی صورت میں محلہ کا قصاب اس کے آٹھ آنے پیسے بھی نہ دے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے کسی صریح نقصان کو، جس میں زکوٰۃ دینے والے اور زکوٰۃ پانے والے دونوں شریک ہوں، اسلام کسی حالت میں بھی گوارا نہیں کر سکتا۔ اس وجہ سے زکوٰۃ پانے والوں اور زکوٰۃ دینے والوں ، دونوں کی مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ اگر اسلامی حکومت باقی نہیں رہی ہے تو جو بھی مذہبی ادارے مسلمانوں کے اندر موجود ہیں، وہی ان کاموں کو حتی الامکان سنبھال لیں جو اجتماعی طور پر کرنے کے ہیں۔ جہاں تک دینے والوں کا تعلق ہے، اگر وہ ان پر اعتماد کرتے ہیں تو یہ ادارے بلا اختلاف ان کے نمائندے اور وکیل ہیں۔ اور جہاں تک غربا کا تعلق ہے، ایک ایسے ملک میں جہاں اسلامی حکومت موجود نہیں ہے، ان کی مثال ایسے یتامیٰ کی ہے جن کا کوئی جائز ولی موجود نہیں رہا ہے۔ اس وجہ سے جو ادارہ بھی ان کے حقوق ان تک پہنچانے اور ان کی خدمت کرنے کی ذمہ داری اٹھالے گا، اس کو اس خاص دائرہ کے اندر کامل قسم کی نہ سہی، لیکن ایک ناقص قسم کی ولایت تو بہرحال حاصل ہو ہی جائے گی۔

پس یہ بات عقل کے بالکل مطابق اور اسلام کے مزاج کے بالکل موافق معلوم ہوتی ہے کہ اسلامی حکومت کی عدم موجودگی کی صورت میں وہ پبلک ادارے مسلمانوں کی زکوٰۃ اکٹھی کرکے غربا کے مصالح پر صرف کریں جن کو پبلک کا اعتماد حاصل ہو، کیونکہ یہ صورت اختیار نہ کرنے کی صورت میں جو انتشار رونما ہو گا ،وہ اغنیا اور فقرا دونوں کے نقطۂ نظر سے نہایت درجہ نقصان رساں ہے۔ اسی مصلحت کو سامنے رکھ کر مولانا مفتی کفایت اللہ مرحوم نے انگریزی دور میں مندرجہ ذیل فتویٰ دیا تھا جو میرے نزدیک نہایت گہری دینی مصلحت پر مبنی ہے۔ میں یہ فتویٰ ناظرین کی آگاہی کے لیے یہاں درج کرتا ہوں، وہ فرماتے ہیں:

’’زکوٰۃ و عشر وغیرہ فرائض مالیہ کا وجوب جن حکم شرعیہ اور مصالح بشریہ پر مبنی ہے، ان کا تقاضا یہ ہے کہ اداے زکوٰۃ و عشر اور مستحقین پر ان کی تقسیم میں تنظیم کا کامل لحاظ رکھا جائے اور ظاہر ہے کہ انفرادی تصرفات میں تنظیم مفقود ہوتی ہے۔اس غلامی کے دور میں جوتفرق و تشتت کا دور ہے، امکانی صورت یہی نظر آتی ہے کہ اہل حل و عقد کی کوئی جماعت اس کام کو اپنے ہاتھ میں لے۔‘‘۴؂

 

B