HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

کیا ایک مقام کی زکوٰۃدوسرے مقام پر صرف نہیں ہو سکتی؟

دوسری چیز جو مولانا ظفر احمد صاحب کے مضمون میں نہایت قابل غور اور اہل علم کے فکر ونظر کی محتاج ہے، وہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک ایک اسلامی حکومت میں زکوٰۃ کی تحصیل اور اس کی تقسیم کا معیاری طریقہ صرف یہ ہے کہ محصلین زکوٰۃ ہر جگہ کھیتوں، کھلیانوں اور چراگاہوں میں پھیل جائیں، زکوٰۃ وصول کریں اور وہیں غربا میں تقسیم کر دیں۔ اور جب تک اس علاقہ میں غربا و مستحقین موجود ہوں، دوسری جگہ اس علاقہ کی زکوٰۃ منتقل نہ کی جائے۔

قطع نظر اس سے کہ موجودہ زمانہ کی حکومتیں جو محاصل کی تشخیص و تحصیل کے معاملہ میں جدید نظریات کی معتقد ہیں اور ہر کام کو منصوبہ بندی کے تحت کرنا پسند کرتی ہیں، اس چیز کو اپنا سکتی ہیں یا نہیں۔ اس میں دو نہایت واضح قباحتیں ایسی ہیں جن کو ایک عام آدمی بھی محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایک تو یہ کہ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جو علاقے زیادہ پست حال ہیں وہ برابر پست حال ہی رہیں، کم از کم زکوٰۃ کی مد سے ان کی اصلاح و ترقی میں کوئی قابل ذکر حصہ نہیں لیا جا سکتا، کیونکہ پست حال علاقوں میں قدرتی طور پر زکوٰۃ کی آمدنی بہت تھوڑی ہو گی اور دوسرے علاقوں کی زکوٰۃ ان علاقوں کی امداد کے لیے مشکل ہی سے کچھ منتقل کی جا سکے گی۔ دوسری یہ کہ کوئی حکومت کسی منصوبہ بندی کے تحت اپنی زکوٰۃ کی پوری آمدنی کسی ایسی دوررس اور مفید اسکیم پر نہیں خرچ کر سکتی جس سے اس ملک کے پست حالوں اور غریبوں کو بحیثیت مجموعی کوئی مستقل فائدہ پہنچ سکے۔ حالانکہ موجودہ زمانہ منصوبہ بندی کا زمانہ ہے، منصوبہ بندی کے ذریعہ سے اگر کوئی حکومت چاہے تو دیکھتے دیکھتے، اپنے انھی ذرائع سے کام لے کر، جو منتشر طور پر استعمال ہونے کے سبب سے کوئی مؤثر نتیجہ پیدا نہیں کر رہے ہیں، اپنے ملک کے غریبوں کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ ہم بات بات پر کہتے ہیں کہ اگر اسلام کا اقتصادی نظام ملک میں جاری ہو جائے تو غریبوں کے آسمان و زمین بدل جائیں گے، لیکن اگر غریبوں کے حصہ کی اصلی آمدنی کا یہی حشر ہوا کہ ہر تھانہ کی زکوٰۃ اسی تھانہ میں تقسیم ہو گئی تو اشتراکیت کا مقابلہ کرنا تو الگ رہا، شاید ہم زکوٰۃ کی آمدنی سے غریبوں کی بے شمار مشکلات میں سے کوئی ایک مشکل بھی حل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔

اس میں شبہ نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں حکومت کی پالیسی عموماً یہی رہی ہے کہ جس جگہ سے زکوٰۃ وصول کی جائے، اگر حقیقی ضرورت وہاں موجود ہو تو وہیں خرچ بھی کر دی جائے، وہاں سے مرکز کو منتقل نہ کی جائے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ایک انتظامی معاملہ تھا جومحض وقت اور حالات کے تقاضے کے تحت عمل میں آیا تھا یا شریعت کا قانون ہی یہی ہے کہ ہر تھانہ ،بلکہ ہر بستی کی زکوٰۃ اسی تھانہ اور اسی بستی میں تقسیم کر دی جایا کرے ؟ نہایت واضح دلائل کی روشنی میں میرا رجحان یہ ہے کہ یہ محض ایک انتظامی معاملہ ہے۔ اسلامی حکومت اختیار رکھتی ہے کہ وہ چاہے تو ہر تھانہ اور ہر بستی کی زکوٰۃ اسی تھانہ یا بستی میں تقسیم کرا دے، چاہے تو کسی خاص علاقہ میں (اگر اس علاقہ میں ایمرجنسی کی صورت پیدا ہو گئی ہو) پورے ملک کی زکوٰۃ اکٹھی کر کے خرچ کر دے اور اگر چاہے تو کسی مرکزی اسکیم کے تحت پورے ملک کی زکوٰۃ کنٹرول کر کے اس کو ملک کے غربا کی کسی نفع بخش اسکیم میں لگا دے، جس سے سب کو فائدہ پہنچے۔

اس کی ایک واضح دلیل تو یہ ہے کہ اگر مقصود انفرادی تقسیم ہی تھی تو زکوٰۃ کے معاملہ کو حکومت کے ہاتھ میں دینے کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔ حکومت کے ہاتھ میں تو دیے ہی وہ معاملات جاتے ہیں جن کے اندر کوئی اجتماعی نوعیت کا تصرف پیش نظر ہو۔ اگر یہ چیز مقصود نہیں تھی تو اول تو بہتر یہی تھا کہ سرے سے یہ معاملہ حکومت کے ہاتھ میں دیا ہی نہ جاتا اور اگر دیا بھی جاتا تو بس اس حد تک کہ اس کے عمال ہر جگہ صرف اس بات کی نگرانی کرتے رہتے کہ لوگ اپنی اپنی زکوٰۃ نکالیں اور غربا میں تقسیم کر دیا کریں۔ اگر لوگ اس میں سست پڑتے نظر آتے تو ان کو ترغیب یا ترہیب سے اس پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے ۔

دوسری دلیل اس کی یہ ہے کہ اگر یہ معاملہ محض انتظامی نوعیت کا نہ ہوتا، بلکہ شریعت کا حکم ہی یہ ہوتا کہ ایک جگہ کی زکوٰۃ دوسری جگہ منتقل نہ ہو تو کم از کم صدر اول میں تو اس کا امکان نہیں تھا کہ اس حکم کی خلاف ورزی کی جا سکتی، لیکن ہم صاف دیکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں مرکزی حکومت براہ راست اپنی ہدایات کے تحت زکوٰۃ کو منتقل بھی کراتی ہے اور نہیں بھی کراتی ہے،کبھی اپنا حصہ کچھ مقرر کر لیتی ہے کبھی کچھ کر لیتی ہے، بلا لحاظ اس کے کہ مقامی غرباکی ضروریات پوری ہو چکی ہیں یا نہیں ؟ جس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں قانون کے تحت سارے اختیارات حکومت کو حاصل ہیں۔ وہ مختلف علاقوں کے حالات اور غربا کے مصالح کے تحت اس میں ہر قسم کا تصرف کر سکتی ہے۔ ذیل میں ہم اہل علم کے غور کرنے کے لیے اپنے خیال کی تائید میں چند دلیلیں پیش کرتے ہیں۔

جس زمانہ میں مدینہ میں مہاجرین کا مسئلہ اقتصادی نقطۂ نظر سے ایک پیچیدہ مسئلہ بنا ہوا تھا، اس زمانہ میں اطراف مدینہ کی زکوٰۃ بڑے اہتمام کے ساتھ وصول کرا کے مدینہ منگوائی جاتی تھی تاکہ مہاجرین کی مشکلات حل کی جا سکیں۔ یہاں تک کہ ایک اعرابی نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وصولی زکوٰۃ کے سلسلہ میں عمال کے رویہ کی سختی کی شکایت کی کہ صدقہ کی ایک بکری کی خاطر مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں میں قتل نہ کر دیا جاؤں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں اس سختی کے لیے جو وجہ بیان فرمائی، وہ یہ تھی کہ:

لولا انھا تعطی فقراء المھاجرین ما اخذتھا.(نیل الاوطار۴/۲۱۶) 
’’اگر یہ چیز غریب مہاجرین کو نہ دینی ہوتی تو میں اس کو نہ لیتا۔‘‘

 

جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حوالی مدینہ کی زکوٰۃ وصول کراکے مدینہ منگوانے کی اصلی وجہ یہی تھی کہ مدینہ میں بے سہارا مہاجرین کا مسئلہ حکومت کے لیے حل کرنا ضروری تھا۔ یہ وجہ نہ تھی کہ حوالی مدینہ میں زکوٰۃ کے مستحقین موجود ہی نہ تھے۔

مہاجرین کے اسیمسئلہ کے سبب سے اہل یمن کے ساتھ زکوٰۃ کے معاملہ میں دو مختلف زمانوں میں دو مختلف پالیسیاں اختیار کی گئیں۔ جس زمانہ میں مہاجرین کا مسئلہ حکومت کے سامنے تھا اور غالباً کپڑوں کی ان کے لیے شدید ضرورت تھی، اس زمانہ میں یمن میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے اہل یمن سے ان کے صدقات کی تمام اصناف و اجناس کے بدلہ میں صرف نئے اور پرانے کپڑے وصول کیے اور وہ سارے کپڑے مہاجرین کے لیے مدینہ روانہ کر دیے ۔ اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مقامی کم اہم ضروریات کے مقابل میں انھوں نے مہاجرین کی زیادہ اہم ضرورت کو مقدم رکھا۔ حضرت معاذرضی اللہ عنہ کے اعلان کے الفاظ ملاحظہ ہوں جس سے صاف وہ مفہوم نکلتا ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے:

ائتونی بکل خمیس ولبیس آخذہ منکم مکان الصدقۃ فانہ ارفق بکم وانفع للمہاجرین والانصار بالمدینۃ. (نیل الاوطار۴/۲۱۶) 
’’تم میرے پاس ہر قسم کے نئے اور پرانے کپڑے لاؤ، میں صدقہ کے معاوضہ میں اس کو قبول کرلوں گا، اس میں تمھیں آسانی ہو جائے گی اور مدینہ کے مہاجرین اور انصار کا بھلا ہو جائے گا۔‘‘ 

کون کہہ سکتا ہے کہ ان کپڑوں کے مدینہ بھیجنے کا سبب صرف یہ تھا کہ یمن میں اس کے مستحقین موجود نہیں تھے؟ مستحقین رہے ہوں، لیکن مدینہ کے مستحقین کا معاملہ مختلف پہلووں سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا، اس وجہ سے ان کو مقامی مستحقین پر ترجیح دی گئی۔

لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب یہ مہاجرین کا مسئلہ بالکل حل ہو گیا تو اسی یمن کی زکوٰۃ کا صرف ایک تہائی حصہ انھی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے مدینہ بھیجا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر اعتراض کیا کہ میں نے تمھیں ٹیکس وصول کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا ہے، اس لیے بھیجا ہے کہ وہاں کے مال داروں سے وصول کرو اور وہیں کے غریبوں میں تقسیم کردو۔ اور جب تک حضرت معاذرضی اللہ عنہ نے ان کو یہ اطمینان نہیں دلا دیا کہ یہاں زکوٰۃ کے مزید حق دار موجود ہی نہیں ہیں، اس وقت تک انھوں نے وہاں کی زکوٰۃ مدینہ بھیجنے کی اجازت نہیں دی۔

اسی طرح ایک سے زیادہ مثالیں اس بات کی موجود ہیں کہ مرکز نے کسی مقام کی زکوٰۃ میں اپنا ایک متعین حصہ مقرر کر دیا ہے اور اس بات کی کوئی تصریح نہیں کی ہے کہ مرکز کا حصہ صرف اس حالت میں مرکز کو بھیجا جائے، جبکہ کوئی مقامی مستحق موجود نہ رہے۔ مثلاً حضرت عمررضی اللہ عنہ کے متعلق ابو عبید نے یہ روایت نقل کی ہے:

قال لابن ابی ذباب وبعثہ بعد عام الرمادۃ فقال اعقل علیہم عقالین فاقسم فیہم احدھما وائتنی بالاخر.(کتاب الاموال۶۰۰)
’’عام الرمادہ کے قحط کے موقع پر حضرت عمر نے زکوٰۃ کی تحصیل کا کام روک دیا تھا، جب قحط دور ہو گیا تو انھوں نے ابن ابو ذباب کو تحصیل زکوٰۃ کے کام پر مقرر کیا اور ان کو یہ حکم دیا کہ لوگوں سے اکٹھے دو سالوں کی زکوٰۃ وصول کرو، آدھی ان میں تقسیم کر دو، آدھی میرے پاس بھیج دو۔‘‘

اسی طرح ایک روایت حضرت عمر بن عبدالعزیز کے متعلق بھی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے اموال زکوٰۃ میں مرکز کا حصہ آدھا مقرر کیا۔ پھر دوسرے سال جب انھوں نے مرکز کے لیے ضرورت نہیں محسوس کی تو ہر جگہ زکوٰۃ مقامی طور پر ہی تقسیم کر دینے کا حکم دے دیا:

عن ابن جریج قال کتب عمر بن
’’ابن جریج راوی ہیں کہ حضرت عمر بن  العزیز الی عمالہ ان ضعوا شطر الصدقۃ ... وابعثوا الی بشطرھا قال ثم کتب فی العام المقبل ان ضعوھا کلھا. (کتاب الاموال ۵۹۴) 
عبدالعزیز نے اپنے تحصیل داروں کو لکھا کہ زکوٰۃ کی آدھی رقم مقامی ضروریات کے لیے رکھ چھوڑو اور آدھی میرے پاس بھیج دو۔ پھر دوسرے سال انھوں نے یہ حکم جاری کر دیا کہ ساری کی ساری مقامی ضروریات ہی کے لیے رکھ چھوڑو۔‘‘

مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ زکوٰۃ کی وصولی اور اس کی تقسیم سے متعلق یہ تصور کچھ بہت صحیح نہیں ہے کہ ہر گاؤں اور ہر تھانہ کی زکوٰۃ وہیں وصول کرکے کھڑے کھڑے تقسیم کر دی جایا کرے، بلکہ، جیسا کہ عرض کیا گیا، یہ معاملہ تمام تر حکومت کی صواب دید پر منحصر ہے۔ وہ چاہے تو مقامی طور پر تقسیم کرا دے، چاہے تو اس میں مرکز کا کوئی متعین حصہ مقرر کر دے، چاہے تو کسی اہم ضرورت کے پیش نظر کسی علاقہ کی پوری زکوٰۃ کسی دوسرے علاقہ کے غربا کی امداد کے لیے اس علاقہ میں بھیج دے۔ اور اسی سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اگر چاہے تو پورے ملک کی زکوٰۃ مرکزی کنٹرول میں لے کر زکوٰۃ کے مذکورہ مصارف میں سے کسی ایک ہی مصرف پر صرف کرے یا ملک کے غربا کی اجتماعی بہبود کی کسی خاص اسکیم پر صرف کرے۔

ممکن ہے کسی کو یہ شبہ ہو کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذرضی اللہ عنہ کویمن بھیجا، تو ان کو یہ ہدایت فرمائی کہ :

خذھا من اغنیاء ھم وضعھا فی فقراءھم.
’’ان کے مال داروں سے زکوٰۃ وصول کرو اور ان کے غریبوں میں اس کو بانٹ دو۔‘‘

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحیح یہی ہے کہ ہر جگہ کے مقامی مال داروں کی زکوٰۃ کے اصلی مستحق اسی مقام کے غربا ہیں۔ ہمارے نزدیک اس شبہ کی بنیاد کچھ قوی نہیں معلوم ہوتی، کیونکہ خود حضرت معاذرضی اللہ عنہ نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا یہ مطلب نہیں سمجھا کہ ایک جگہ کی زکوٰۃ دوسری جگہ منتقل نہیں ہو سکتی۔ اگر وہ اس کا یہ مطلب سمجھتے تو یہ بات کس طرح ممکن تھی کہ وہ اس حکم کے بالکل خلاف اہل یمن کے سامنے یہ اعلان کرتے کہ :

ائتونی بکل خمیس ولبیس آخذہ منکم مکان الصدقۃ فانہ ارفق بکم وانفع للمھاجرین والانصار بالمدینۃ.(نیل الاوطار۴/۲۱۶)
’’ہر قسم کے نئے اور پرانے کپڑے میرے پاس لاؤ، میں صدقہ کی جگہ ان کو قبول کروں گا، اس میں تمھیں بھی آسانی ہو گی اور مدینہ کے مہاجرین و انصار کا بھی بھلا ہو گا۔‘‘

اب یا تو یہ ہو کہ عام پالیسی تو یہی رہی ہوکہ مقامی اغنیا سے زکوٰۃ وصول کرکے وہیں مقامی غربا میں تقسیم کر دی جایا کرے، لیکن خاص مرکز کی ہدایت کے تحت مہاجرین کی ضرورت کے پیش نظر انھوں نے کسی سال اہل یمن سے مذکورہ بالا مطالبہ کیا ہو یا یہ ہو کہ انھوں نے ’توخذ من اغنیاء ھم و ترد علی فقراءھم‘ کو اس کے وسیع معنی میں لیا ہو اور ایک انتظامی حکم کی حیثیت سے حالات اور مصالح کے تحت جب جیسا مناسب خیال کیا ہو، اس پر عمل کیا ہو۔ لیکن ان دونوں صورتوں میں سے جو شکل بھی فرض کی جائے، یہ چیز بالکل صاف واضح ہے کہ یہ لازمی نہیں ہے کہ ہر جگہ کی زکوٰۃ وہیں تقسیم کی جایا کرے۔

 

 

B