اس ’’لام‘‘ کے علاوہ مجھے فقہ کی مشہور اور متداول کتابوں میں تملیک کے رکن زکوٰۃ ہونے کی کوئی دلیل باوجود تلاش کے نہیں ملی اور اگر ملی بھی ہے تو اس کا تملیک کی دلیل ہونا کم از کم اس عاجز پر کسی پہلو سے بھی واضح نہیں ہو سکا۔ تاہم چونکہ اسی طرح کی بعض مبہم چیزوں کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے ،اس وجہ سے میں ان پر بھی ایک تنقیدی نظر ڈالنا چاہتا ہوں۔
مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی نے ’’بدائع الصنائع‘‘ کے حوالہ سے تملیک کی مندرجہ ذیل دلیل اپنے مضمون میں نقل فرمائی ہے:
وقد امر اللّٰہ تعالٰی الملاک بایتاء الزکوٰۃ لقولہ عزوجل و اٰتوا الزکوٰۃ والایتاء ھو التملیک ولذاسمی اللّٰہ تعالی الزکوٰۃ صدقۃ بقولہ عزوجل اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآءِ والتصدق تملیک.(۲/۳۹)
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم ’وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ‘ کے ذریعہ سے مالکین نصاب کو زکوٰۃ کا حکم دیا ہے اور ’ایتاء‘ تملیک ہی ہے۔ اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا نام صدقہ رکھا ہے۔ ارشاد ہے: ’اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ‘ اور تصدیق وہی تملیک ہے۔‘‘
دوسری جگہ ہے:
واما رکنہ فھو التملیک لقولہ تعالیٰ واتوا حقہ یوم حصادہ والایتاء ھو التملیک.(بدائع الصنائع۲/۶۴۔۶۵)
’’رہا زکوٰۃ کا رکن تو وہ تملیک ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:’وَاٰتُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ‘ (اور اس کی کٹائی کے وقت اس کا حق دو) یہاں ’ایتاء‘ سے مقصود ہی تملیک ہے۔‘‘
تملیک کی تائید میں جن نصوص کا حوالہ دیاجاتا ہے، وہ یہ ہیں:
اما النص فقولہ تعالٰی انما الصدقات للفقراء وقولہ عزوجل فی اموالھم حق معلوم للسائل والمحروم والاضافۃ بحرف اللام تقتضی الاختصاص بجھۃالملک اذاکان المضاف الیہ من اھل الملک.(بدائع الصنائع ۲/۴)
’’رہا تملیک کے ثبوت میں نص تو اللہ تعالیٰ کا قول ’اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ‘ (خیرات کا مال تو بس غریبوں کے لیے ہے) اور دوسری آیت ہے: ’فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ لِّلسَّآءِلِ وَالْمَحْرُوْمِ‘ (اور ان کے مالوں میں سائل اور محروم کے لیے ایک متعین حق ہے) حرف لام کے ذریعہ سے جب اضافت ہو تو وہ ملکیت کے پہلو سے اختصاص کو چاہتی ہے بشرطیکہ مضاف الیہ اہل ملک میں سے ہو۔‘‘
بس یہی دلیلیں ہیں جو تملیک کی تائید میں فقہ کی مختلف کتابوں میں دہرا دہرا کر پیش کی گئی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ان پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔پہلی دلیل یہ کہ ’ایتاء‘ اور ’تصدق‘ کے الفاظ کی حقیقت ہی تملیک ہے۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ ’لِلْفُقَرَآءِ‘ اور ’لِلسَّآءِلَ وَالْمَحْرُوْمِ‘ میں جو’’لام‘‘ہے ،وہ اختصاص ملک کا مقتضی ہے، اگر مضاف الیہ اہل ملک میں سے ہو۔
جہاں تک پہلی دلیل کا تعلق ہے، یہ گزارش ہے کہ اس میں تو شبہ نہیں کہ ’ایتاء‘ اور ’تصدق‘ کے الفاظ میں بعض جگہ تملیک کا مفہوم بھی شامل ہو جاتا ہے، لیکن اس میں بہت کچھ دخل قرینہ اور سیاق و سباق کو ہوتا ہے۔ یہ بات نہیں ہے کہ ان الفاظ ہی کے اندر تملیک کا مفہوم داخل ہو اور جب یہ بولے جائیں تو تملیک کا مفہوم ان کے اندر سے آپ ہی آپ نکل آئے۔ اگر ایسا ہوتا تو بلاشبہ ان کو تملیک کے ثبوت میں بطور نص کے پیش کیا جا سکتا تھا، لیکن یہ ایک بالکل واضح حقیقت ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ ورنہ ہمیں ’اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ‘ ( ہم نے ان کو کتاب دی) اور ’اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا‘ ( ہم نے داؤد کو زبور عطا کی)میں بھی تملیک کا مفہوم لینا پڑے گا، حالانکہ ان میں اور اس طرح کے بے شمار استعمالات میں تملیک کے مفہوم کا کوئی شائبہ بھی نہیں ہے۔ پس دیکھنا یہ ہے کہ جہاں جہاں قرآن یا حدیث میں یہ الفاظ اداے زکوٰۃ و خیرات کے لیے بولے گئے ہیں، وہاں بے تکلف تملیک کی طرف ذہن جاتا ہے یا نہیں؟ میں نہایت ادب کے ساتھ عرض کروں گا کہ قرآن میں جہاں کہیں بھی ’اٰتُوا الزَّکٰوۃَ‘ یا’تَصَدَّقُوْا‘ وغیرہ کے الفاظ آئے ہیں، وہاں متبادر مفہوم ان الفاظ کا صرف یہی ہے کہ زکوٰۃ دو اور صدقہ دو، سارا زور صدقہ اور زکوٰۃ ادا کرنے پر ہے۔ اس سے بحث نہیں کہ یہ ادائیگی تملیک فقیر کی شکل میں ہو یا کسی اور شکل میں۔ یہ چیز ’اٰتُوْا‘ اور’تَصَدَّقُوْا‘ کے الفاظ سے نہیں نکلتی۔ اگر اس کی کوئی اور دلیل ہو تو اس پر غور کیا جا سکتا ہے، لیکن محض ’اٰتُوْا‘ اور’تَصَدَّقُوْا‘ کے سہارے پر تملیک کو ادائیگی زکوٰۃ کا رکن نہیں قرار دیا جا سکتا۔
چند مثالیں میں قرآن سے پیش کرتا ہوں، ان کو ملاحظہ فرمائیے:
فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ.(التوبہ۹: ۵)
’’پس اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔‘‘
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ(الحج ۲۲: ۴۱)
’’جن کا حال یہ ہے کہ اگر ہم ملک میں ان کو اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے۔‘‘
وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآاٰتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ.(المومنون۲۳:۶۰)
’’اور جن کا حال یہ ہے کہ وہ جو کچھ خدا کی راہ میں دیتے ہیں، اس کو خدا سے ڈرتے ہوئے دیتے ہیں۔‘‘
یہ چند آیتیں ہم نے بغیر کسی انتخاب کے نقل کر دی ہیں۔ ان کو خالی الذہن ہو کر پڑھیے اور پھر غور کیجیے کہ ان میں سارا زور زکوٰۃ کے ادا کرنے کے مفہوم پر ہے یا تملیک فقیر کے وجوب پر؟ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد ان سے تعرض نہ کیا جائے یا یہ بتانا چاہتا ہے کہ جب تک یہ تملیک فقیر نہ کر دیں، ان کا پیچھا نہ چھوڑا جائے؟ اسی طرح تیسری آیت پر نگاہ ڈالیے، اس میں ’ایتاء‘ کا لفظ موجود ہے، لیکن اس سے مقصود ان لوگوں کی انفاق فی سبیل اللہ کی خصلت کا اظہار ہے یا اس بات کا اظہار کہ یہ لوگ اللہ سے ڈرتے ہوئے تملیک فقیر کیا کرتے ہیں؟۳
اب آئیے دو آیتیں ’تصدق‘ سے متعلق بھی ملاحظہ فرمایئے:
فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ.(المنافقون۶۳:۱۰)
’’پس میں صدقہ کرتااور نیکوکاروں میں سے بنتا۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ میں مختلف طریقوں سے اللہ کی راہ میں اور غربا کی بہبود کے کاموں میں فیاضی کے ساتھ اپنا مال خرچ کرتا یا یہ ہے کہ میں تملیک فقیر کیا کرتا؟
وَمِنْہُمْ مَّنْ عٰہَدَ اللّٰہَ لَءِنْ اٰتٰنَا مِنْ فَضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ.(التوبہ۹:۷۵)
’’ان میں سے وہ بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے یہ عہد کیا تھا کہ اگر اللہ نے ہم کو اپنے فضل سے نوازا تو ہم صدقہ کیا کریں گے۔‘‘
فرمائیے کہ اس قول کے قائلین کے ذہن میں یہ مضمون تھا کہ اگر ہمیں مال ملا تو ہم تملیک فقیر کیا کریں گے یا یہ مقصد تھا کہ اگر ہم کو مال ملا تو ہم اللہ کے راستے میں مختلف طریقوں سے خرچ کریں گے قطع نظر اس سے کہ تملیک ہو یا نہ ہو۔
ان مثالوں کے ذکر سے ہمارا مقصد محض اس حقیقت کو ظاہر کرنا ہے کہ ’ایتاء‘ یا ’تصدق‘ کے الفاظ تملیک کے معنی یا مفہوم کے لیے ایسے قطعی نہیں ہیں کہ آپ ان کو تملیک کے ثبوت میں نص کی حیثیت سے پیش کریں۔ ان سے اصلی چیز جو ظاہر ہوتی ہے وہ دینا یا خرچ کرنا ہے۔ یہ دینا اور خرچ کرنا تملیک کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور بغیر اس کے بھی ہو سکتا ہے۔ تملیک پر اس قدر اصرار اور وہ بھی تملیک کی ایک خاص نوعیت پر کہ اس کے بغیر زکوٰۃ ادا ہی نہ ہو سکے، یہاں تک کہ کوئی شخص زکوٰۃ کے پیسوں سے کسی غریب میت کے لیے کفن بھی نہ خرید سکے، کسی غریب مردہ کا قرض بھی ادا نہ کر سکے، میرے نزدیک ایک بالکل بے حقیقت بات ہے۔
دوسری دلیل میں بناے استدلال تمام تر’ ’لام‘‘ پر قائم ہے جس کی پوری حقیقت ہم واضح کر چکے ہیں۔ البتہ یہ پہلو اس میں نیا ہے کہ ’’لام‘‘ کو تملیک کے بجائے اختصاص کے مفہوم میں لے کر اس سے اختصاص ملک کا مضمون نکالا گیا ہے اور یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر اضافت ’’لام‘‘ کے ذریعہ سے ہو اور مضاف الیہ اہل ملک میں سے ہو تو وہ اختصاص ملک پر دلیل ہے۔ میرے نزدیک یہ دعویٰ بھی بے بنیاد ہے۔ ہم ’اَلْفَرَسُ لِلرَّاکِبِ‘ (گھوڑا سوار کے لیے ہے) اور ’اَلْمِنْبَرُ لِلْخَطِیْبِ‘ (منبر خطیب کے لیے ہے) بولتے ہیں۔ ان میں اضافت بھی ’’لام‘‘ کے ذریعہ سے ہے اور مضاف الیہ بھی دونوں جملوں میں اہل ملک میں سے ہیں، لیکن ان سے کوئی شخص بھی اختصاص ملک نہیں سمجھتا، بلکہ صرف ایک نوعیت کا اختصاص ہی سمجھتا ہے۔ پھر ’اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ‘ اور ’فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآءِلِ وَالْمَحْرُوْمِ‘ میں اختصاص ملک کا مضمون کہاں سے آئے گا۔ بہرحال اگر اس استدلال کو تھوڑی دیر کے لیے صحیح بھی فرض کر لیا جائے تو اس کی حیثیت زیادہ سے زیادہ ایک استنباط کی ہوئی، اس کا یہ درجہ نہیں ہے کہ اس کو ایک رکن دین قرار دے دیا جائے اور جہاں اس کی کسی سے کوئی ادنیٰ قسم کی بھی خلاف ورزی صادر ہوئی تو اس کے متعلق قطعیت کے ساتھ یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ وہ ایک حکم شرعی کا منکر ہے۔