HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

لام تملیک سے استدلال کی حقیقت

حنفیہ اگرچہ ’اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ‘ والی آیت میں لام کو تملیک کے معنی میں نہیں لیتے، اس وجہ سے ان کے ہاں تملیک پر استدلال کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، لیکن یہ لام بہرحال ایک بناے بحث بن سکتا ہے اور اس سے ایک شخص تملیک پر استدلال کر سکتا ہے جیسا کہ امام شافعی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اس سے تملیک پرا ستدلال کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ’’لام‘‘ تملیک کے مفہوم کے لیے ایسا نص قطعی ہے کہ تملیک کو اداے زکوٰۃ کے لیے ایک رکن کی حیثیت دے دی جائے جس کے بغیر زکوٰۃ ادا ہی نہ ہو سکے اور اس کے نتیجہ میں وہ سارے مسائل پیدا کر ڈالے جائیں جن کا صدر مضمون میں ہم نے حوالہ دیا ہے اور جن کے سبب سے زکوٰۃ جیسی اہم چیز کی ساری افادیت بالکل ختم ہو کے رہ جاتی ہے۔

میں یہ عرض کرتا ہوں کہ اس ’’لام‘‘کو تملیک کے مفہوم کے لیے خاص کر دینا ایک نہایت کمزور بات ہے۔ عربی زبان میں یہ حرف کچھ ایک ہی معنی کے لیے نہیں آتا کہ اس سے حاصل شدہ مفہوم کو شرط اور رکن کا مرتبہ دے دیا جائے۔ حروف کی بحث میں آٹھویں صدی ہجری کے مشہور نحوی شیخ جمال الدین ابن ہشام انصاری کی’’مغنی اللبیب‘‘ ایک مستند ترین کتاب ہے۔ اس فاضل نے یہ کتاب لکھی ہی اس غرض سے ہے کہ یہ قرآن و حدیث کی نحوی مشکلات کے حل کرنے میں رہنمائی کر سکے ۔انھوں نے’ ’لام‘‘ کے متعلق یہ لکھا ہے کہ یہ ۲۲ معنوں کے لیے آتا ہے ۔ان تمام معانی کی تفصیل نقل کرنا تو یہاں مشکل بھی ہے اور غیر ضروری بھی، لیکن اس کے چند معانی کتاب مذکور سے ہم یہاں درج کرتے ہیں تاکہ اس کی وسعت کا اندازہ ہو سکے اور جو لوگ اس کو تملیک کے معنی کے لیے ایک نص قطعی بتا رہے ہیں، ان کی غلطی واضح ہو سکے۔ علامہ موصوف نے اس حرف کے جو معانی بتائے ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:

۱۔ استحقاق کے معنی کے لیے، مثلاً ’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘ (شکر حقیقی کا حق دار اللہ ہی ہے)۔ ’وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ‘ (ماپ تول میں کمی کرنے والے ویل کے مستحق ہیں)۔

۲۔ اختصاص کے معنی کے لیے، مثلاً’اَلْجَنَّۃُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ‘ (جنت اہل ایمان کے لیے خاص ہے)۔

۳۔ ملکیت کے مفہوم کے لیے ، مثلاً ’لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ‘ (اسی کی ملکیت ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے)۔

۴۔ تملیک کے معنی کے لیے ، مثلاً ’وَھَبْتُ لِزَیْدٍ دِیْنَارًا‘(میں نے زید کو ایک دینار ہبہ کر دیا)۔

۵۔ تملیک سے ملتے جلتے مفہوم کے لیے، مثلاً ’جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا‘ (اور تمھاری ہی جنس سے تمھارے لیے بیویاں بنائیں)۔

اوپر ضمناً ’’لام عاقبت‘‘ بھی زیر بحث آ چکا ہے، اس وجہ سے اس کی نوعیت بھی معلوم کر لیجیے۔ سترھویں نمبر پر اس کا ذکر اس طرح آتا ہے کہ ’لام صیرورۃ‘جس کو ’’لام عاقبت‘‘ اور ’’لام مآل‘‘ بھی کہتے ہیں، مثلاً ’فَالْطَقَتَہٗٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِیَکُوْنَ لَھُمْ عَدُوًّا وَّحُزْنًا‘ (اور اس (موسیٰ کو) فرعون کے گھر والوں نے دریا سے نکال لیا تاکہ ان کے لیے دشمن اور غم کا کانٹا بنے)۔

یہ لام جر کے ۲۲ معنوں میں سے ہم نے صرف چند کا حوالہ دیا ہے، اس سے اس کی وسعت کا اندازہ کیجیے۔ اور ساتھ ہی یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہے کہ صاحب ’’مغنی اللبیب‘‘ حتی الوسع ہر مفہوم کی مثالیں قرآن و سنت سے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن تملیک کے مفہوم کی وضاحت کے لیے انھوں نے قرآن کی کوئی مثال دینے کے بجاے عربی زبان کا ایک عام فقرہ ’وَھَبْتُ لِزَیْدٍ دِیْنَارًا‘نقل کر دیا ہے۔ اگر آیت ’اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ‘ کی ’’لام‘‘ تملیک کے مفہوم کے لیے کوئی واضح اور قطعی چیز ہوتی تو ابن ہشام کے ذوق کے یہ بات بالکل خلاف تھی کہ وہ قرآن کی ایک مثال نظر انداز کرکے ایک کم تر درجہ کی مثال پیش کرتے۔

بہرحال تملیک کے نظریہ کی عمارت اگر ’لِلْفُقَرَآءِ‘ کی لام ہی پر کھڑی ہے تو ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ یہ بنیاد نہایت کمزور ہے۔ اول تو اس کے مفہوم ہی کے بارہ میں بڑے اختلافات ہیں۔ احناف اس کو لام عاقبت کے معنی میں لیتے ہیں، جیسا کہ شارح ’’ہدایہ‘‘ کے اس نوٹ سے مترشح ہوتا ہے جس کا اوپر ہم نے حوالہ دیا ہے، مالکیہ اس کو لام اجل کے مفہوم میں لیتے ہیں، جیسا کہ قاضی ابن عربی نے ’’احکام القرآن‘‘ میں بتصریح لکھا ہے۔ صرف امام شافعی کے متعلق یہ تصریح ملتی ہے کہ وہ اس کو تملیک کے معنی میں لیتے ہیں۔ ثانیاً ،اگر یہ اختلاف نہ بھی ہوتا، جب بھی زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا تھا کہ آیت میں تملیک کے مفہوم کی بھی گنجایش نکلتی ہے۔ اور اس کی حیثیت محض ایک استنباط کی ہوتی، نہ کہ ایک نص قطعی کی جس کی بنا پر تملیک کو اداے زکوٰۃ کے لیے رکن یا شرط لازم قرار دے دیا جائے۔

میرے نزدیک یہاں لام تو استحقاق و اختصاص کے مفہوم کے لیے ہے یا انتفاع و افادہ کے مفہوم کے لیے، تملیک کے لیے ہرگز نہیں ہے۔ سیاق و سباق کلام اس مفہوم سے ابا کرتا ہے۔

سب سے پہلے نظم کلام کی روشنی میں اس مسئلہ پر غور کیجیے۔ ’اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ‘ والی آیت جس سیاق و سباق میں ہے، وہ یہ ہے:

وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوْا وَاِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنہَآ اِذَا ہُمْ یَسْخَطُوْنَ.وَلَوْ اَنَّہُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَرَسُوْلُہٗٓ اِنَّآ اِلَی اللّٰہِ رٰغِبُوْنَ. اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ.(التوبہ۹:۵۸۔۶۰) 
’’اور ان منافقین میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو تمھیں صدقات کی تقسیم کے بارہ میں متہم کرتے ہیں۔ اگر اس میں سے انھیں بھی ان کی خواہش کے بقدر دیا جائے تو راضی رہتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو بگڑ بیٹھتے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ اس پر قناعت کرتے جو اللہ اور اس کے رسول نے ان کو دیا اور کہتے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے، اللہ اپنے فضل سے ہمیں نوازے گا اور اس کا رسول بھی ہمیں عطا فرمائے گا، ہم تو اللہ ہی سے لو لگائے ہوئے ہیں تو یہ بات ان کے حق میں بہتر ہوتی۔ خیرات کا مال تو بس فقیروں کا حق ہے اور محتاجوں کا اور ان کارکنوں کا جو مال خیرات کے وصول کرنے پر تعینات ہیں اور ان لوگوں کا جن کے دلوں کا پرچانا منظور ہے۔ نیز گردنیں چھڑانے میں اور زیر باروں کے قرضہ میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کی ضروریات میں اس کو خرچ کیا جائے۔ یہ اللہ کا ٹھہرایا ہوا فریضہ ہے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔‘‘

دیکھیے، یہاں اوپر والی آیت میں ذکر ان منافقین کا تھا جن کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حسن ظن اور سوء ظن تمام تر اغراض پر مبنی تھا۔ اگر خیرات کے مال میں سے ان کی خواہش کے بقدر انھیں مل جاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوب خوب تعریفیں کرتے اور خواہش کے بقدر نہ ملتا تو آپ کو متہم کرنے سے بھی باز نہ رہتے۔ آپ پر بے جا جانب داری اور ناروا پاس داری کا الزام لگاتے اور لوگوں میں طرح طرح کی وسوسہ اندازیاں کرتے پھرتے۔ غور کیجیے کہ اس سیاق میں بتانے کی بات کیا ہو سکتی ہے، یہ کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے کسی فقیر کو اس کا مالک بنانا ضروری ہے یا یہ کہ زکوٰۃ و خیرات کی رقموں کے اصلی حق دار اور مستحق فلاں فلاں قسم کے لوگ ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس سیاق میں بتانے کی بات یہ دوسری ہی ہو سکتی ہے نہ کہ پہلی۔ چنانچہ مفسرین میں سے جن لوگوں کی نظر سیاق و سباق پر رہتی ہے ،انھوں نے آیت کی یہی تاویل کی بھی ہے۔ صاحب ’’کشاف‘‘ ’اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ‘ کی تاویل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

قصر لجنس الصدقات علی الاصناف المعدودۃ وانھا مختصۃ بھا لا تتجاوزھا الی غیرھا کانہ قیل انما ھی لہم لا لغیرھم ونحوہ قولک انما الخلافۃ لقریش ترید لا تتعداھم ولا تکون لغیرھم.(الکشاف۲/۲۶۹) 
’’یہاں صدقات و زکوٰۃ کو مذکورہ اقسام پر محدود کر دیا گیا ہے اور یہ کہ یہ انھی کے لیے خاص ہے۔ دوسروں کی طرف یہ چیز منتقل نہیں ہو سکتی۔ گویا یہ بات کہی گئی ہے کہ یہ چیز انھی کے لیے ہے، ان کے ماسوا لوگوں کے لیے نہیں ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ تم کہو: ’اِنَّمَا الْخِلَافَۃُ لِقُرَیْشٍ‘ (خلافت تو بس قریش کے لیے ہے) یعنی یہ ان کے سوا دوسروں کا حق نہیں ہے۔‘‘

پس لام یہاں جس چیز کو ظاہر کر رہا ہے، وہ صرف خیرات و صدقات کا مذکورہ اصناف کے لیے خاص ہونا ظاہر کر رہا ہے، نہ تملیک کے معاملہ سے اس کوکوئی تعلق ہے اور نہ اس مسئلہ سے اس کو کوئی واسطہ ہے کہ یہ تمام اصناف بیک وقت اس کی حق دار ہیں یا ان میں سے مصلحت کے تحت کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دی جا سکتی ہے یا ان میں سے کسی ایک ہی کو اس کا مصرف بنایا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد آیت کی اندرونی تالیف پر غور کرکے دیکھیے کہ خود اس کے مختلف اجزا کی باہمی مناسبت کا تقاضا کیا ہے۔ آیت کے اندر، جیسا کہ بالکل واضح ہے، آٹھ اصناف کا بحیثیت مصارف خیر کے ذکر ہے، جن میں سے ابتدائی چار کا ذکر’’لام‘‘کے تحت ہے اور چار کا ذکر ’فی‘کے تحت۔ ظاہر ہے کہ کلام میں یہاں کوئی ایسی ہی تقدیر ماننا مناسب ہو گا جو ’’لام‘‘ کے ساتھ بھی مربوط ہو سکے اور ’فی‘ کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہو سکے۔اگر ’’لام‘‘ کو تملیک کے معنی میں لیجیے تو آیت کا ابتدائی حصہ اس کے آخری حصہ سے بالکل ہی بے ربط ہو کے رہ جائے گا، کیونکہ ’فی‘ میں بہرحال تملیکیت کا کوئی مفہوم نہیں پایا جاتا۔ اگر اس کے اندر پایا جاتا ہے تو افادیت اور خدمت و مصلحت کا مفہوم پایا جاتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے: ’مَا کَانَ الْعَبْدُ فِیْ عَوْنِ اَخِیْہِ‘ (جب تک کہ ایک مسلمان اپنے بھائی کے کام میں یا اس کے مصالح کی خدمت میں رہتا ہے)۔ پس آیت کے دونوں حصوں کی ہم آہنگی کا اقتضا یہ ہے کہ یہاں لام کو استحقاق یا انتفاع کے مفہوم میں لیا جائے تاکہ ایک ہی تقدیر کے تحت پوری آیت کی تاویل ہو سکے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا، بلکہ ’’لام‘‘ میں تملیک کا مفہوم لیا گیا تو آخری چار اصناف کے ساتھ تملیکیت کا مفہوم جوڑنے کے لیے کلام کی وسعت اور اس کی بلاغت کو بالکل ذبح کر دینا پڑے گا جیسا کہ فی الواقع کیا بھی گیا ہے اور جس کی تفصیل آگے آئے گی۔ اس ادبی نکتہ کی طرف ابن منیر نے ’’کشاف‘‘ کے حاشیہ ’’الانتصاف‘‘ میں توجہ دلائی ہے:

فاما ان یکون التقدیر انما الصدقات مصروفۃ للفقرآء کقول مالک او مملوکۃ للفقراء کقول الشافعی لکن الاول متعین لانہ تقدیر یکتفی بہ فی الحرفین.(الانتصاف حاشیہ کشاف ۲/۲۸۳) 
’’’اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ‘ میں تقدیر کلام یا تو یہ ہو گی کہ صدقات فقرا کے لیے صرف کیے جائیں گے، جیسا کہ امام مالک کہتے ہیں یا یہ ہو گی کہ صدقات للفقراء کی ملکیت ہیں ،جیسا کہ امام شافعی کا قول ہے۔ لیکن یہاں پہلی تقدیر متعین ہو جاتی ہے، کیونکہ یہ دونوں حرفوں (’ل‘ اور ’فی‘) کے ساتھ یکساں طور پر ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔‘‘

B