HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

تملیک شخصی کے نظریہ کی حقیقت

زکوٰۃ کے مصرف اور اس کی وصولی سے متعلق یہ سارے نظریات درحقیقت فرع ہیں’’تملیک فقیر‘‘ یا بالفاظ دیگر’’تملیک شخصی‘‘کے نظریہ کی۔ ادائیگی زکوٰۃ کے لیے یہ ضروری قرار دے دیا گیا ہے کہ کسی محتاج اور غریب کو اس کا مالک بنایا جائے، اس قسم کی تملیک کے بغیر زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔ اس چیز کو ادائیگی زکوٰۃ کی ضروری شرط، بلکہ رکن زکوٰۃ تسلیم کر لینے سے وہ نتائج آپ سے آپ پیدا ہوتے ہیں جن کا ہم نے اوپر حوالہ دیا ہے۔ اس وجہ سے سب سے مقدم یہ ہے کہ معلوم کیا جائے کہ یہ نظریہ کس دلیل شرعی پرقائم ہے ۔

اس میں تو شبہ نہیں ہے کہ فقہ حنفی کی کتابوں میں تملیک کا ذکر آتا ہے اور اسی کی بنیاد پر وہ مسائل پیدا ہوئے ہیں جن کا اوپر ذکر ہواہے، لیکن مجھے تلاش کے باوجود کہیں اس مسئلہ پر کوئی ایسی بحث نہیں ملی جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ اس کا ماخذ کتاب و سنت کے اندر کیا ہے، کن تقاضوں سے یہ وجود میں آیا ہے اور کب سے اس نے فقہ حنفی کے اندر ایک مسلمہ کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ یہاں تک کہ اس کے متعلق اجماع تک کا دعویٰ کیا جانے لگا ہے۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شریعت میں کسی چیز کوکسی چیز کا رکن قرار دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کتاب اور سنت کے اندر اس کی کوئی اصل ہو۔ بغیر اس قسم کی کسی اصل کے کسی چیز کو کسی چیز کا رکن قرار دے دینا دین میں ایک اضافہ ہے جس کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا تملیک کے حق میں اس قسم کی کوئی دلیل قرآن یا حدیث سے ملتی ہے ؟ اس سوال کے جواب میں، میں یہاں صاحب’’ شرح العنایہ علی الہدایہ‘‘ کا ایک نوٹ نقل کرتا ہوں جو انھوں نے صاحب ’’ہدایہ‘‘ کے اس دعویٰ کی تائید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تملیک رکن زکوٰۃ ہے۔ اس نوٹ سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو جائے گی کہ یہ نظریہ کتاب و سنت کی کسی دلیل کے اوپر مبنی ہے یا محض دعویٰ ہی دعویٰ ہے۔ صاحب ’’شرح العنایہ‘‘ فرماتے ہیں:

لان الاصل فیدفع الزکوۃ تملیک فقیر مسلم غیر ہاشمی ولا مولاہ جزأ من المال مع قطع منفعۃ المدفوع عن نفسہ مقرونا بالنیۃ. ولقائل ان یقول قولکم التملیک رکن دعوی مجردۃ اذ لیس فی الادلۃ النقلیۃ المنقولۃ فی ھذا الباب مایدل علی ذالک خلا قولہ تعالٰی... اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآءِ ... وانتم جعلتم اللام للعاقبۃ دون التملیک. والجواب ان معنی قولھم للعاقبۃ ان المقبوض یصیر ملکالھم فی العاقبۃ فھم مصارف ابتدأً لا مستحقون ثم یحصل لھم الملک فی العاقبۃ بدلالۃ اللام فلم تبق دعوی مجردۃ. (حاشیہ فتح القدیر ۲/۲۰)
’’کیونکہ ادائیگی زکوٰۃ کے لیے اصلی چیز یہ ہے کہ آدمی اپنے مال کے کچھ حصہ کا کسی مسلمان محتاج کو، جو ہاشمی یا کسی ہاشمی کا آزاد کردہ غلام نہ ہو، ادائیگی زکوٰۃ کی نیت کے ساتھ اس طرح مالک بنا دے کہ خود اپنی کوئی غرض اس ادا کردہ مال کے ساتھ وابستہ نہ رکھے۔ ایک معترض اس پر یہ کہہ سکتا ہے کہ تمھارا یہ کہنا کہ تملیک ادائیگی زکوٰۃ کے لیے رکن کی حیثیت رکھتی ہے محض ایک خالی خولی دعویٰ ہے، کیونکہ زکوٰۃ کے سلسلہ میں جو نقلی دلیلیں وارد ہیں، ان میں کوئی چیز ایسی نہیں ملتی جس سے اس دعویٰ کا ثبوت مہیا ہوتا ہو۔ لے دے کر اس باب میں جو چیز دلیل کی حیثیت رکھتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہےکہ ’اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ‘،لیکن اس کا حال بھی یہ ہے کہ تم (یعنی حنفیہ) ’لِلْفُقَرَآءِ‘کے ’’لام‘‘کو ’’عاقبت‘‘کے معنی میں لیتے ہو، تملیک کے معنی میں نہیں لیتے۔ جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ لام کو جو ہم ’’عاقبت‘‘کے معنی میں لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ مال آخر کار ان کی ملک بن جائے گا۔ پس اپنی ابتدائی حیثیت میں تو یہاں فقرا اور مساکین کا ذکر مصارف زکوٰۃ بیان کرنے کے پہلو سے ہوا ہے، مستحقین کی حیثیت سے نہیں ہوا ہے، لیکن لام اس بات پر دلیل ہے کہ بالآخر ان کو ملکیت حاصل ہو جائے گی۔ پس تملیک کا دعویٰ محض دعویٰ ہی دعویٰ نہیں رہا۔‘‘

اس نوٹ کو بغور پڑھیے ۔یہ ایک ایسے بلند مرتبہ حنفی عالم کے قلم سے نکلا ہے جنھوں نے’’ہدایہ‘‘ جیسی بلند پایہ کتاب پر حاشیہ لکھا ہے۔ ان کے اپنے اعتراف سے یہ بات نکلتی ہے کہ تملیک کے رکن زکوٰۃ ہونے کی کوئی نقلی دلیل موجود نہیں ہے۔ لے دے کر اگر کسی چیز کو دلیل کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے تو وہ ایک لام ہے جو ’اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ‘ والی آیت میں لفظ’فُقَرَآءِ‘ پر داخل ہے۔ اس’’ لام‘‘ کا بھی حال یہ ہے کہ احناف اس کو غالباً شوافع کے استدلال سے بچنے کے لیے تملیک یا استحقاق کے معنی میں نہیں لیتے، بلکہ’’عاقبت‘‘ کے معنی میں لیتے ہیں۔۲؂ اول تو اس ’’لام‘‘ کو ’’عاقبت‘‘ کے معنی میں لینے کا کوئی تک نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اس معنی میں اس کو لے بھی تو بہر حال اس سے تملیک کا مفہوم تو کسی طرح بھی نہیں پیدا کیا جا سکتا۔ اگر بہت تکلف سے کام لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں لام کو عاقبت کے معنی میں لینے کے بعد بھی یہ آیت تملیک کے مفہوم کے خلاف نہیں جاتی اور یہی ان بزرگ عالم نے فرمایا بھی ہے، لیکن اتنی بات کچھ بھی مفید مطلب نہیں ہے۔ اصلی سوال تو یہ ہے کہ تملیک کے رکن زکوٰۃ ہونے کی کتاب و سنت سے کوئی دلیل ہے یا نہیں ؟ اگر اس کی کوئی دلیل موجود ہے تو ہم بڑے شوق سے یہ مان لیں گے کہ اس’’لام‘‘کو’’عاقبت‘‘ کے معنی میں لینے سے بھی کوئی خاص حرج واقع نہیں ہوتا، لیکن اگر اصل دعویٰ ثابت نہ ہو تو محض لام عاقبت کی اس توجیہ سے اصل بحث کو کیا فائدہ پہنچے گا ؟ تملیک کا دعویٰ تو اس توجیہ کے بعد بھی محض دعویٰ ہی دعویٰ رہا ۔

 

B