HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

مسئلۂ تملیک اور زکوٰۃ سے متعلق بعض دوسرے مسائل

’’ترجمان القرآن‘‘بابت محرم ۱۲۷۴ میں خان محمد صاحب ربانی کا ایک مضمون بعنوان ’’حضرات علماے کرام کی خدمت میں چند سوالات‘‘ شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں چند ایسے سوال اٹھائے گئے تھے جو ادائیگی زکوٰۃ کے لیے تملیک کو رکن یا شرط قرار دینے کے سبب سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان سوالوں کے جواب میں مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی کے دو مکتوب ’’ترجمان القرآن‘‘ بابت جمادی الاولیٰ۱۳۷۴ میں شائع ہوئے ہیں۔ مولانا ظفر احمد صاحب نے اپنے مکاتیب میں ان اشکالات کا فقہ حنفی کی روشنی میں جواب دینے کی کوشش کی ہے جو ربانی صاحب نے پیش کیے تھے۔ مجھے مولانا کے بعض پیش کردہ نتائج سے اختلاف ہے۔ اس وجہ سے میں چاہتا ہوں کہ اپنا نقطۂ نظر بھی ان صفحات میں پیش کر دوں تاکہ مولانا اور دوسرے اہل علم ان پر غور کر سکیں۔ بحث کی سہولت کے لیے میں پہلے مولانا ظفر احمد صاحب کے خیالات حتی الامکان خود ان کے الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ اس کے بعد اپنی ناچیز معروضات پیش کروں گا۔

تملیک کے متعلق مولانا کا نقطۂ نظر یہ ہے:

’’تملیک فقیر ‘‘زکوٰۃ کے لیے شرط ہی نہیں، بلکہ رکن ہے، بلکہ زکوٰۃ کی حقیقت ہی’’تملیک فقیر‘‘ ہے۔ زکوٰۃ میں تملیک کا ضروری ہونا متفق علیہ ہے۔ کسی امام کا اس میں اختلاف بیان نہیں کیا گیا، بلکہ امام شافعی کی طرف تو یہ قول منسوب کیا گیا ہے کہ ان کے نزدیک ’اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ‘ میں’لام‘ ملک کے لیے ہے ۔‘‘

تملیک کو ادائیگی زکوٰۃ کی ایک بنیادی شرط مان لینے کے بعد جہاں بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں، وہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اموال زکوٰۃ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اسے منتقل کرنے کے مصارف بھی زکوٰۃ کی مد سے نہیں ادا کیے جا سکتے،کیونکہ اس میں تملیک فقیر نہیں پائی جاتی ۔جس کے معنی دوسرے الفاظ میں یہ ہوئے کہ زکوٰۃ کی چیزوں کو مد زکوٰۃ کے مصارف سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اس کے دو جواب مولانا نے دیے ہیں۔ ایک یہ کہ:

’’جس زمانہ میں زکوٰۃ اسلامی حکومت کے ذریعہ سے وصول کی جاتی تھی، اس کی یہ صورت نہ تھی کہ عامل تنہا ہرشخص کے مکان یا چراگاہ پر جاتا اور زکوٰۃ وصول کرتاہو، بلکہ اس کے ساتھ سپاہیوں کا ایک دستہ ہوتا تھا، وہی اس مقام کے تھانہ یا تحصیل میں زکوٰۃ کے مویشی اور اموال جمع کرتے تھے اور اس بستی کے غربا اسی جگہ جمع ہو جاتے اور ان پر زکوٰۃ تقسیم کر دی جاتی تھی۔ جب تک اس مقام پر فقرا موجود ہوتے دوسرے مقام پر زکوٰۃ منتقل نہ ہوتی تھی۔‘‘

مولانا کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی نوبت ہی نہ آتی تھی کہ منتقل کرنے کے مصارف کا سوال پیدا ہو۔ جس کھیت یا کھلیان یا چرا گاہ سے زکوٰۃ وصول ہوئی، وہیں غربا و فقرا جمع ہو گئے اور تحصیل داروں نے ان کے اندر زکوٰۃ تقسیم کی اور دامن جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ دوسرا جواب مولانا نے یہ دیا ہے کہ:

’’چونکہ ولایت عامہ کی وجہ سے امام فقرا کا وکیل ہوتا تھا اور عمال امام کے نائب ہوتے تھے، اگر فقرا کی مصلحت سے زکوٰۃ کو منتقل کرنے کی ضرورت ہوتی تو امام اور اس کے عمال کو مصارف نقل بھی مال زکوٰۃ سے وصول کرنے کا حق تھا۔ جیسا خود فقیر، مال زکوٰۃ پر قبضہ کرکے اپنے گھر لے جاتا تو مصارف نقل اسی مال سے نکال سکتا تھا... امام یا مصدق کا مال زکوٰۃ پر قبضہ کرنا فقرا ہی کا قبضہ کرنا ہے، کیونکہ وہ بوجہ ولایت عامہ کے فقرا کا وکیل ہے۔‘‘

مولانا نے ولایت عامہ کا یہ حق صرف ایک ایسی اسلامی حکومت کے لیے تسلیم کیا ہے جو آئین اسلام کے مطابق اسلامی حکومت ہو۔ محض رسمی اور اسمی قسم کی مسلمان حکومتوں کے لیے مولانایہ حق تسلیم نہیں کرتے کہ وہ ولایت عامہ کی مدعی بن کر مسلمانوں سے عشروزکوٰۃ کا مطالبہ کر سکیں۔مولانا کے اپنے الفاظ یہ ہیں:

’’مطالبۂ عشر و زکوٰۃکا یہ حق اسی حکومت مسلمہ کو حاصل ہے جو آئین اسلام کے مطابق اسلامی حکومت ہو۔ ہر حکومت کو یہ حق حاصل نہیں جو کہ برائے نام ہی اسلامی حکومت ہو اور واقعہ میں اسلامی حکومت نہ ہو۔‘‘

اس اصولی جواب کے بعد مولانا نے خود ہی خاص پاکستان کی حکومت سے متعلق بھی یہ بات صاف کر دی ہے کہ یہ وہ اسلامی حکومت نہیں ہے جو مسلمانوں سے عشر و زکوٰۃ کے مطالبہ کی حق دار ہو۔ خود ان کے اپنے الفاظ یہ ہیں:

’’یہاں سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ بڑا مقصد اسلامی سلطنت قائم کرنے سے امور دین کا انتظام، احکام شرعیہ کا نفاذ، نماز اور صدقات و زکوٰۃ کا نظم اور شریعت کے موافق مسلمانوں کے معاملات کا فیصلہ کرنا، جہاد اور سامان جہاد کا بندو بست کرنا ہے۔اگر کسی سلطنت سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو وہ اسلامی سلطنت نہ ہو گی اگرچہ مسلمانوں کی سلطنت ہو۔ اور صدقات و زکوٰۃ وصول کرنے کا حق اسی سلطنت کو حاصل ہے جو اس مقصد کو پورا کرے جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے، ورنہ اس کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا۔ پس جو لوگ اسلامی سلطنت میں سیاست اور مذہب کو الگ کرنا چاہتے ہیں، وہ اسلامی سلطنت قائم نہیں کرنا چاہتے، بلکہ یورپین طرز کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ ہندوستان کو تقسیم کر کے پاکستان...‘‘

اچھا، اگر پاکستان کی حکومت اس بات کی حق دار نہیں ہے کہ یہاں کے مسلمانوں سے عشر و زکوٰۃ کا مطالبہ کر سکے تو کیا یہاں کے مذہبی اور دینی اداروں اور انجمنوں میں سے کسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ مسلمانوں سے عشر و زکوٰۃ کی تحصیل کر سکے ؟ اس سوال کا جواب مولانا یہ دیتے ہیں:

’’عام اداروں کو ولایت عامہ حاصل نہیں، اس لیے ان کو فقرا مجہولین کا قائم مقام نہیں کہہ سکتے، صرف زکوٰۃ دینے والوں کا نائب کہہ سکتے ہیں، کیونکہ وہ تو معلوم ہیں۔ پس ان کے قبضہ کو قبضۂ فقرا نہیں کہا جا سکتا۔ اور ان کے ہاتھ میں زکوٰۃ کی رقم پہنچنے سے زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا نہ ہوگی، جب تک فقرا کے قبضہ میں نہ پہنچ جائے۔ اگر یہ ادارے یا ان کے عاملین زکوٰۃ میں سے سفر خرچ وغیرہ نکالیں گے زکوٰۃ پوری ادا نہ ہو گی، ادھوری ہو گی۔ پس جو ادارے زکوٰۃ کی تحصیل و وصول کے لیے کھڑے ہوں، ان کو ولایت عامہ حاصل کرنا چاہیے۔ جس کی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ حکومت کی طرف سے ان کو یہ حق دیا جائے یا پھر عامۃ المسلمین باتفاق ان کو یہ حق دے دیں،کیونکہ عامۃ المسلمین بھی حکومت کے قائم مقام ہو جاتے ہیں۔مگر عامۃ المسلمین کا کسی ادارہ پر اتفاق بہت دشوار ہے۔‘‘

مولاناکے ان ارشادات کی روشنی میں زکوٰۃ کے مصارف اور اس کی وصول و تحصیل سے متعلق جو حقائق سامنے آتے ہیں، وہ با لاجمال مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ زکوٰۃ کی رقم سے غربا کی اجتماعی خدمت و بہبود کا کوئی چھوٹا یا بڑا کام نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً آپ اس سے غریبوں کے محلہ میں کوئی مسجد نہیں بنا سکتے، ان کے لیے تعلیم دین کا کوئی ادارہ نہیں کھول سکتے، ان کی ذہنی اور فکری تربیت کے لیے کوئی اسلامی لائبریری نہیں قائم کر سکتے، ان کے مریضوں کے مفت علاج کے لیے کوئی شفا خانہ نہیں بنا سکتے، غریبوں کے کسی محلہ میں اگر کنواں نہیں ہے تو ان کے پانی پینے کے لیے آپ کنواں بھی نہیں بنوا سکتے، مسافروں کے لیے کوئی سرائے یا تالاب بھی نہیں بنا سکتے۔ الغرض اس قسم کا کوئی کام، جو اجتماعی نوعیت رکھتا ہو ،خواہ وہ سو فی صدی غریبوں ہی کے مفاد سے تعلق رکھتا ہو، آپ اس کو زکوٰۃ کی مد سے نہیں کر سکتے۔ کیونکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے شرط ہے کہ کسی معین مستحق زکوٰۃ کو اس کا مالک بنایا جائے۔ مذکورہ صورتوں میں یہ شرط مفقود ہے، کیونکہ ان میں فائدہ بہت سے غریبوں کے درمیان مشترک ہو گیا ہے، اس وجہ سے تملیک نہیں پائی گئی۔

۲۔ آپ اس زکوٰۃ کی رقم سے کسی غریب کی لاش ٹھکانے لگانے کا انتظام بھی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ وہ غریب مر جانے کے سبب سے اس قابل تو رہا نہیں کہ اس مال کو اپنے قبضہ میں لے کر اپنے کفن اور دوسرے سامان تجہیزو تدفین کا انتظام کر سکے اور تملیک فقیر کی شرط جو ادائیگی زکوٰۃ کے لیے رکن کی حیثیت ر کھتی ہے، پوری ہو سکے، اس وجہ سے زکوٰۃ کی مد سے اس کی تجہیز و تکفین بھی نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح آپ کسی مردہ غریب کا قرضہ بھی زکوٰۃ کی رقم سے ادا نہیں کرسکتے اور نہ ہی کسی غلام کو خرید کر آزاد کر سکتے ہیں۔کیونکہ ہر چند یہ کام غریبوں کی بڑی خدمت کے ہیں، لیکن تملیک فقیر جو اداے زکوٰۃ کے لیے شرط ضروری ہے، ان دونوں صورتوں میں بھی مفقود ہے۔۱؂

۳۔ کوئی پبلک انجمن یا ادارہ خواہ اس کی دینی حیثیت کتنی ہی مسلم ہو، تحصیل زکوٰۃ کا مجاز نہیں ہے۔ اگر کوئی دینی ادارہ یا انجمن اس کام کو کرے تو وہ وصول کردہ زکوٰۃ میں سے ایک پیسا بھی اس کی وصولی کے مصارف پر خرچ نہیں کر سکتی۔ورنہ اس کے بقدر زکوٰۃ ادا کر نے والوں کی زکوٰۃ ہی ادا نہ ہو گی ۔اس کے لیے جائز صورت صرف یہ ہے کہ ایک طرف وہ زکوٰۃ دینے والوں سے زکوٰۃ وصول کرے، دوسری طرف غریبوں کو اس کا مالک بناتا جائے۔ یا پھر اگر وہ اس رقم کو غریبوں کی تعلیم یا دوسری ضروریات پر اجتماعی طریقے سے خرچ کرنا چاہے تو پھر اس حیلہ سے کام لے جو عموماً ہمارے مدرسوں میں کیا جاتا ہے، یعنی پہلے زکوٰۃ کسی غریب طالب علم کو دلوائے اور پھر اس طالب علم پر دباؤ ڈال کر اس سے مدرسے یا انجمن کے فنڈ میں وہی رقم بطور عطیہ وصول کر لے۔

۴۔ دینی انجمنوں کے لیے واحد جائز راستہ یہ ہے کہ وہ حکومت سے یا عامۂ مسلمین سے غریبوں کی ولایت عامہ کا حق حاصل کریں۔ لیکن افسوس ہے کہ پاکستان میں اس چیز کے حاصل کرنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے،کیونکہ پاکستان کی حکومت کو، جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے، خود ولایت عامہ حاصل نہیں ہے، تو جو چیز خود اس کو حاصل نہیں ہے، وہ چیز وہ کسی دوسرے کو کس طرح بخش سکتی ہے ؟ رہے جمہور مسلمین تو ان کے بارے میں خود مولانا ہی نے بالکل صحیح فرما دیا ہے کہ ان کا کسی ادارہ پر متفق ہونا بہت ہی دشوار ہے۔

۵۔ پاکستان میں ادائیگی زکوٰۃ کی معیاری شکل صرف یہ ہے کہ ہر صاحب زکوٰۃ اپنی زکوٰۃ خود نکالے اور خود کسی مستحق کوتلاش کر کے اس کو اس کا مالک بنا دے۔

ان ساری باتوں کی بنیاد فقہ حنفی پر بتائی جاتی ہے اور فقہ حنفی کے متعلق عام تصور (اور خود ہمارا اپنا تصور بھی) یہ ہے کہ وہ اجتماعی اور سیاسی پہلو سے دوسری فقہوں کے مقابل میں عقل سے قریب تر ہے،لیکن زکوٰۃ سے متعلق اس کے ترجمانوں نے یہ تصورات جو دیے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ ان پر کسی شخص کا قلب بھی پوری طرح مطمئن ہو سکے۔ زکوٰۃ اسلامی معاشرے کے لیے بمنزلہ ریڑھ کی ہڈی کے ہے، لیکن اگر یہ واقعہ ہے کہ اس کے ذریعے سے کوئی اجتماعی نوعیت کا کام نہیں کیا جا سکتا اور غریبوں کی مجموعی بہبود کی اسکیمیں اس سے بروے کار نہیں لائی جاسکتیں، بلکہ ختم کی دیگ کی طرح اس کا وہیں تقسیم کر دیا جانا لازمی ہے جہاں یہ پکائی گئی ہے تو اس کی افادیت کم ازکم موجودہ زمانہ کے اقتصادی ماحول میں تو بمنزلۂ صفر ہو کے رہ جاتی ہے۔

پھر ایک غور وفکر کرنے والا آدمی یہ سوچ کے بھی حیران رہ جاتا ہے کہ زکوٰۃ کے ذریعہ سے نیکی اور خدمت خلق کے وہ کام بھی انجام نہیں دیے جا سکتے جن میں سے بعض کا ہم نے اوپر حوالہ دیا ہے، یہاں تک کہ کسی غریب کی تجہیزو تکفین بھی اس سے عمل میں نہیں آ سکتی۔

آگے چل کر اس سے زیادہ حیران کن صورت حال یہ سامنے آتی ہے کہ ایک طرف تو اسلام زکوٰۃ کے معاملہ میں اجتماعیت پر اس درجہ زور دیتا ہے کہ ایک اسلامی حکومت میں کم از کم اموال ظاہرہ کی حد تک کسی شخص کا انفرادی طور پر اپنی زکوٰۃ ادا کرنا سرے سے کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔ یا دوسری طرف اسلامی حکومت موجود نہ ہونے کی صورت میں یہ حال ہو جائے کہ ہر شخص کے لیے انفرادی طور پر اپنی زکوٰۃ ادا کرنا ہی ایک معیاری طریقہ رہ جائے اور اعلیٰ کے موجود نہ ہونے کے غصہ میں اعلیٰ سے قریب تر شکلوں کا اہتمام بھی چھوڑ دیا جائے۔

یہ باتیں ایک عام آدمی کے ذہن میں سخت تشویش اور الجھن پیدا کرتی ہیں۔ بالخصوص یہ چیز تو آدمی کو خود شریعت ہی سے بدگمان کر دیتی ہے کہ صدقات کی رقوم کو کسی عمدہ اجتماعی کام پر صرف کرنے کا اس کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں ہے کہ ایک نہایت بدنما حیلے کی آڑ لی جائے۔ اس وجہ سے نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کی پوری تحقیق کی جائے۔ اگر فی الواقع دین میں اس کی کوئی بنیاد ہے تو وہ بنیاد معلوم کی جائے جس پر یہ پوری عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ اور اگر یہ ایک بے بنیاد چیز ہے تو اس کی بے حقیقتی واضح کر دی جائے تاکہ بلا وجہ شریعت کے متعلق کسی کے دل میں بدگمانی پیدا نہ ہو۔

 

B