مذکورہ بالا روایتوں کی روشنی میں ہمارے فقہا نے بھی اپنی مؤلفات میں جمعے اور جماعت کو ترک کرنے کے اعذار کو تفصیل سے بیان کیا ہے، جن کو ہم ذیل میں بیان کریں گے:
ترک جمعہ وجماعت کے انفرادی اعذار
۱۔ ایسی بیماری جس میں ایک شخص کے لیے مسجد کی حاضری باعث مشقت ہو۔
۲۔ جان، مال، آبرو یا اہل وعیال کے حوالے سے آدمی کو کوئی خوف اور خطرہ لاحق ہو یا وہ گھر پر کسی مریض کی تیمار داری اور نگہداشت پر مامور ہو۔ (اِس میں، ظاہر ہے کہ طبیب، سرجن، ہسپتالوں میں ایمرجنسی وارڈ میں کام کرنے والا عملہ، لوگوں کے جان ومال کے تحفظ پر مامور آفیسرز، محافظ، پولیس اور فوجی بھی شامل سمجھے جائیں گے)۔
۳۔ بھوک کی حالت میں کھانا حاضر ہو۔
۴۔ رفع حاجت کا تقاضا ہو۔
۵۔ پیاز، لہسن یا اِسی طرح کی کوئی چیز آدمی نے کھائی ہو جس کی بو سے دوسرے نمازیوں کو اذیت پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ایسے شخص کے لیے مسجد کی حاضری سے رخصت نہیں ہے، بلکہ اِس کے لیے مسجد میں جا کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا فقہا نے مکروہ قرار دیا ہے۔ یہی حکم، ظاہر ہے کہ ایسے پیشوں میں کام کرنے والے تمام لوگوں کا ہوگا جن کے پیشے کی وجہ سے اُن کے وجود سے لوگوں کو بو محسوس ہوتی اور اذیت پہنچتی ہو اور اِسی طرح برص اور جذام کے مریض، جن کی موجودگی سے لوگ اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں، اُن کو بھی بعض فقہا نے اِسی کے تحت رکھا ہے۔
۶۔ بدن کو ٹھیک سے ڈھانپنے کے لیے آدمی کے پاس کپڑے نہ ہوں۔
۷۔ سفر کی تیاری اور روانگی کا موقع ہو اور باجماعت نماز کے لیے آدمی مسجد چلا جائے تو سفر میں کسی دشواری یا قافلے کے چھوٹ جانے کا اندیشہ ہو۔
۸۔ سخت نیند کا غلبہ ہو۔
۹۔ علماے حنفیہ کے نزدیک نابینا شخص بھی جماعت کی حاضری سے معذور سمجھا جاتا ہے۔
۱۰۔ آدمی شادی کر کے بیوی کو گھر لایا ہو اور جماعت کا وقت ہوجائے توفقہاے شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک ایسےشخص کو بھی جماعت کی حاضری سے رخصت حاصل ہوگی۔ شافعیہ نے البتہ، اِس رخصت کو رات کی نمازوں کے ساتھ مقید مانا ہے۔
۱۱۔ علماے شافعیہ نے زیادہ موٹاپےکو بھی ترک جماعت کے لیے باعث رخصت مانا ہے۔
۱۲۔ علماے حنفیہ نے علم فقہ میں اشتغال کو بھی جماعت ترک کرنے کے لیے معتبر عذر مانا ہے۔
ترک جمعہ وجماعت کے عمومی اور اجتماعی اعذار
۱۔ تیز بارش جس میں لوگوں کے لیے مسجد کی حاضری میں دشواری ہو۔
۲۔ آندھی جس کی وجہ سے گھر سے نکلنا ممکن نہ ہو۔
۲۔ سخت سردی یا گرمی جس میں مسجد جانا باعث مشقت ہو۔
۳۔ شدید کیچڑ جو لوگوں کے لیے باعث اذیت ہو۔
۴۔ انتہائی تاریکی جس کی وجہ سے آدمی کے لیے مسجد جانا دشوار ہو یا جان کا خطرہ محسوس ہو۔(دیکھیے: الموسوعۃ الفقہيۃ الكويتیۃ، وزارة الاوقاف والشئون الاسلاميۃ الكويت، ج27،ص 186-191)
اِن عمومی اعذار کے حکم میں، ظاہر ہے کہ ہر وہ حالت شامل سمجھی جائے گی جو لوگوں کو مسجد کی حاضری سے روکنے کا باعث بن جائے، جیسے زلزلہ، آگ لگ جانا، باہر کسی دشمن کا موجود ہونا یا بیماری وغیرہ کی صورت میں کسی وبا کا پھیل جانا ہے۔
مندرجہ بالا تفصیل سے واضح ہے کہ فرض نمازوں کو جماعت کے ساتھ اور مسجد میں ادا کرنا معمول کے حالات میں ایک باعث اجر عمل اور فضیلت کی چیز ہے اور اِس حکم میں عورتیں اصلاً شامل نہیں ہیں۔ نماز کی صحت کے لیے اِس کی حیثیت کسی لازمی شرط کی قطعاً نہیں ہے۔ پھر اسلامی شریعت کے احکام میں، جیساکہ پیچھے تفصیل سے بیان ہوچکا ہے، نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے لیے کوئی تنگی اور مشقت نہیں رکھی گئی ہے، بلکہ عذر اور زحمت کی بنا پر واجباتِ دین اور شرائط عبادات میں بھی رخصتیں اور رعایتیں دی گئی ہیں۔ چنانچہ عذر کی بنا پر رفع حرج اور آسانی دینے کے قرآنی اصول پر با جماعت نماز کے اِس پسندیدہ عمل میں بھی، ظاہر ہے کہ مردوں کو رخصت حاصل ہوگی، جیسا کہ زحمت اور دشواری کے مواقع پر خود رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ نے اِس سے لوگوں کو رخصت دی تھی اورہمارے فقہا نے بھی اِس کو بہت وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ (جاری)